خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں
کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے
-
موضوعات : آوازاور 1 مزید
اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں زخم رہ گزاروں کے
-
موضوع : بہار
میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں
تڑپ رہا ہے جو بیتاب ہو کے زخموں سے
یہ راستے میں مرے دل کے ہو بہو کیا ہے
نئے زخم لاتی ہے باد صبا
چمن میں ہر اک پھول بیمار ہے
-
موضوعات : باداور 1 مزید
آج کس کی جان سے کھیلو گے اے چارہ گرو
آج پہلو میں مرے زخم جگر کوئی نہیں
-
موضوع : چارہ گر
کھل رہے ہیں گلاب زخموں کے
شکریہ آپ کی نوازش کا
-
موضوع : گلاب
کسی کے ہاتھ ہی راضی نہ تھے رفو کے لئے
وگرنہ زخم حد اندمال تک آئے
-
موضوع : رفو
درد کی چاہ میں پہلے تو کریدوں شب بھر
پھر اسی زخم کو سینے کا مزا لیتا ہوں
تا عمر ترا نقش فروزاں رہے مجھ میں
اک زخم کی صورت مرے ماتھے پہ ابھر جا