Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saleem Ahmed's Photo'

سلیم احمد

1927 - 1983 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے لئے مشہور

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے لئے مشہور

سلیم احمد کے اشعار

10.7K
Favorite

باعتبار

قرب بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے

اک عمر کٹ گئی کسی نا آشنا کے ساتھ

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے

تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

یاد نے آ کر یکایک پردہ کھینچا دور تک

میں بھری محفل میں بیٹھا تھا کہ تنہا ہو گیا

کسی کو کیا بتاؤں کون ہوں میں

کہ اپنی داستاں بھولا ہوا ہوں

ہم نے شکوہ کبھی کیا نہ کریں

شکوہ ہے اعتراف ناکامی

چلی ہے موج میں کاغذ کی کشتی

اسے دریا کا اندازہ نہیں ہے

سفر میں عشق کے اک ایسا مرحلہ آیا

وہ ڈھونڈتا تھا مجھے اور کھو گیا تھا میں

کون تو ہے کون میں کیسی وفا

حاصل ہستی ہیں کچھ رسوائیاں

گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو

پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے

نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے

یہ شہر آب کو ترسے گا چشم تر کے بغیر

لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو لیکن

کچھ مرا حال بھی پہلے سے سنا رکھا ہے

دل جو اس بزم میں آتا ہے تو جاتا ہی نہیں

ایک دن دیکھنا دیوانہ ہوا رکھا ہے

نہیں رہا میں ترے راستے کا پتھر بھی

وہ دن بھی تھے ترے احساس میں خدا تھا میں

خوش نما لفظوں کی رشوت دے کے راضی کیجیے

روح کی توہین پر آمادہ رہتا ہے بدن

خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں

یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا

کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند

کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے

آنسوؤں سے تو ہے خالی درد سے عاری ہوں میں

تیری آنکھیں کانچ کی ہیں میرا دل پتھر کا ہے

دشت و در خیر منائیں کہ ابھی وحشت میں

عشق نے پہلا قدم نام خدا رکھا ہے

خود اپنی دید سے اندھی ہیں آنکھیں

خود اپنی گونج سے بہرا ہوا ہوں

سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو

بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے

زمیں یخ بستہ ہو جاتی ہے جب جاڑوں کی راتوں میں

میں اپنے دل کو سلگاتا ہوں انگارے بناتا ہوں

تو شیشہ بنے کہ سنگ کچھ بن

اندر سے مگر گداز ہو جا

مجھے حرف غلط سمجھا تھا تو نے

سو میں معنی کا دفتر ہو گیا ہوں

اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا

روشنی کے ساتھ رہیئے روشنی بن جائیے

رسم جہاں نہ چھوٹ سکی ترک عشق سے

جب مل گئے تو پرسش حالات ہو گئی

میرا شور غرقابی ختم ہو گیا آخر

اور رہ گیا باقی صرف شور دریا کا

لباس درد بھی ہم نے اتارا

یہ کپڑے اب پرانے ہو چکے ہیں

برا لگا مرے ساقی کو ذکر تشنہ لبی

کہ یہ سوال مری بزم میں کہاں سے اٹھا

روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش

کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے

میں اس کو بھول گیا تھا وہ یاد سا آیا

زمیں ہلی تو میں سمجھا کہ زلزلہ آیا

میں وہ معنی غم عشق ہوں جسے حرف حرف لکھا گیا

کبھی آنسوؤں کی بیاض میں کبھی دل سے لے کے کتاب تک

اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے

اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں

سائے کو سائے میں گم ہوتے تو دیکھا ہوگا

یہ بھی دیکھو کہ تمہیں ہم نے بھلایا کیسے

حال دل کون سنائے اسے فرصت کس کو

سب کو اس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

بارہا یوں بھی ہوا تیری محبت کی قسم

جان کر ہم نے تجھے خود سے خفا رکھا ہے

جتنا آنکھ سے کم دیکھوں

اتنی دور دکھائی دے

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے

اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے

قصہ چھیڑا مہر و وفا کا اول شب ان آنکھوں نے

رات کٹی اور عمر گزاری پھر بھی بات ادھوری تھی

وہ جنوں کو بڑھائے جائیں گے

ان کی شہرت ہے میری رسوائی

حال مت پوچھ محبت کا ہوا ہے کچھ اور

لا کے کس نے یہ سر راہ دیا رکھا ہے

دل حسن کو دان دے رہا ہوں

گاہک کو دکان دے رہا ہوں

وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی

پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا

شاید کوئی بندۂ خدا آئے

صحرا میں اذان دے رہا ہوں

یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں

سو اندر سے پگھلتا جا رہا ہوں

بدن کی آگ کو کہتے ہیں لوگ جھوٹی آگ

مگر اس آگ نے دل کو مرے گداز کیا

محلے والے میرے کار بے مصرف پہ ہنستے ہیں

میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبارے بناتا ہوں

یہ نہیں ہے کہ نوازے نہ گئے ہوں ہم لوگ

ہم کو سرکار سے تمغہ ملا رسوائی کا

بہت طویل مری داستان غم تھی مگر

غزل سے کام لیا مختصر بنانے کا

ان کو جلوت کی ہوس محفل میں تنہا کر گئی

جو کبھی ہوتے تھے اپنی ذات سے اک انجمن

منزل کا پتا ہے نہ کسی راہ گزر کا

بس ایک تھکن ہے کہ جو حاصل ہے سفر کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے