Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ada Jafarey's Photo'

ادا جعفری

1924 - 2015 | کراچی, پاکستان

اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف

اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف

ادا جعفری کے اشعار

22.7K
Favorite

باعتبار

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں

تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے

کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو

ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا

جس کی باتوں کے فسانے لکھے

اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید

ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی

جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا

یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی

گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے

البیلا جھونکا کیا جانے

جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی

حال اس کا بھی میرے حال سا تھا

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں

یہ کس کا جمال آ گیا ہے

ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک

کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے

دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے

رونق کوچہ و بازار سے آگے نہ بڑھو

کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنہ

دل اس کو ڈھونڈھتا تھا جسے جانتا نہ تھا

ریت بھی اپنی رت بھی اپنی

دل رسم دنیا کیا جانے

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے

وہم سا دل کو ہوا تھا شاید

ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا

کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا

کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب

ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا

بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی

پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی

جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی

وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی

خامشی سے ہوئی فغاں سے ہوئی

ابتدا رنج کی کہاں سے ہوئی

کوئی طائر ادھر نہیں آتا

کیسی تقصیر اس مکاں سے ہوئی

کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ

سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا

نہ بہلاوا نہ سمجھوتا جدائی سی جدائی ہے

اداؔ سوچو تو خوشبو کا سفر آساں نہیں ہوتا

سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ

اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری

وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

کن منزلوں لٹے ہیں محبت کے قافلے

انساں زمیں پہ آج غریب الوطن سا ہے

بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں

وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا

متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں

جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

خزینے جاں کے لٹانے والے دلوں میں بسنے کی آس لے کر

سنا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں

ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا

ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی

مزاج و مرتبۂ چشم نم کو پہچانے

جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں

وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں

بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے

جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے

خلش تیر بے پناہ گئی

لیجئے ان سے رسم و راہ گئی

تو نے مژگاں اٹھا کے دیکھا بھی

شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

وہ بے نقاب سامنے آئیں بھی اب تو کیا

دیوانگی کو ہوش کی فرصت نہیں رہی

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت‌ انساں

میں جنت‌ انساں کا پتا ڈھونڈھ رہی ہوں

آپ ہی مرکز نگاہ رہے

جانے کو چار سو نگاہ گئی

پھر نگاہوں کو آزما لیجے

پھر وفاؤں پہ اشتباہ رہے

یہ پھر کس نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا

مچلنے لگے سینکڑوں شوخ ارماں

شاید کسی نے یاد کیا ہے ہمیں اداؔ

کیوں ورنہ اشک مائل طوفاں ہے آج پھر

سجدے تڑپ رہے ہیں جبین نیاز میں

سر ہیں کسی کی زلف کا سودا لیے ہوئے

اور کچھ دیر لب پہ آہ رہے

اور کچھ ان سے رسم و راہ رہے

کس کو خبر ہیں کتنے بہکتے ہوئے قدم

مخمور انکھڑیوں کا سہارا لیے ہوئے

مستی بھری ہواؤں کے جھونکے نہ پوچھیے

فطرت ہے آج ساغر و مینا لیے ہوئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے