Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asrarul Haq Majaz's Photo'

اسرار الحق مجاز

1911 - 1955 | لکھنؤ, انڈیا

معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور،آل انڈیا ریڈیوکے رسالہ آواز کے پہلے مدیر،معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے ماموں

معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور،آل انڈیا ریڈیوکے رسالہ آواز کے پہلے مدیر،معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے ماموں

اسرار الحق مجاز کے اشعار

51K
Favorite

باعتبار

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تشریح

یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔

شفق سوپوری

اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم

ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم

ڈبو دی تھی جہاں طوفاں نے کشتی

وہاں سب تھے خدا کیا نا خدا کیا

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا

کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ

تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں

پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی

شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا

ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ

خون دل بھی شراب ہونا تھا

پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک

پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے

عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے

حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے

تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے

اس سعئ کرم کو کیا کہئے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

آوارہ و مجنوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ

ملنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ

ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے

یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں

سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا

بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے

میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے

اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں

اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے

کب کیا تھا اس دل پر حسن نے کرم اتنا

مہرباں اور اس درجہ کب تھا آسماں اپنا

ہائے وہ وقت کہ جب بے پیے مدہوشی تھی

ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں

مری بربادیوں کا ہم نشینو

تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے

روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے

ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ

ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا

انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا

چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر

اب تو بس آواز ہی آواز ہے

کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی

میں نے اک خواب سا دیکھا کیا تھا

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں

جنس الفت کا طلب گار ہوں میں

روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے

اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے

یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا

آنکھ سے آنکھ جب نہیں ملتی

دل سے دل ہم کلام ہوتا ہے

کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں

یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں میں

آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم

میری مے خواری ابھی تک راز ہے

دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو

اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں

کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی

کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا

حسن کو شرمسار کرنا ہی

عشق کا انتقام ہوتا ہے

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے

سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو

یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی

وقت کی سعیٔ مسلسل کارگر ہوتی گئی

زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئی

جلوۂ طور خواب موسیٰ ہے

کس نے دیکھا ہے کس کو دیکھا ہے

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے

الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے