Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ehsan Danish's Photo'

احسان دانش

1914 - 1982 | لاہور, پاکستان

بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر

بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر

احسان دانش کے اشعار

14.7K
Favorite

باعتبار

تم سادہ مزاجی سے مٹے پھرتے ہو جس پر

وہ شخص تو دنیا میں کسی کا بھی نہیں ہے

احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں

احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے

مرنے والے فنا بھی پردہ ہے

اٹھ سکے گر تو یہ حجاب اٹھا

لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے

خاک سے سینکڑوں اگے خورشید

ہے اندھیرا مگر چراغ تلے

کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام

تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو

دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت مے کدہ گئی

فرصت مے کشی تو ہے حسرت مے کشی نہیں

مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر

بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو

ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر

پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے

میں جس رفتار سے طوفاں کی جانب بڑھتا جاتا ہوں

اسی رفتار سے نزدیک ساحل ہوتا جاتا ہے

دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن

اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا

ایسے انجان بنے بیٹھے ہو

تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے

بجز اس کے احسانؔ کو کیا سمجھئے

بہاروں میں کھویا ہوا اک شرابی

ستا لو مجھے زندگی میں ستا لو

کھلے گا پس مرگ احسان کیا تھا

احسانؔ ایسا تلخ جواب وفا ملا

ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی

آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں

اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں

لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا

بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے

ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر

شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک

سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو

یہ اجالوں کے جزیرے یہ سرابوں کے دیار

سحر‌ و افسوں کے سوا جشن طرب کچھ بھی نہیں

حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھ

اپنی اک طرز نظر ایجاد کر

ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں

شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو

اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو

اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا

فسون شعر سے ہم اس مہ گریزاں کو

خلاؤں سے سر کاغذ اتار لائے ہیں

کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر

کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے

ہاں آپ کو دیکھا تھا محبت سے ہمیں نے

جی سارے زمانے کے گنہ گار ہمیں تھے

میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی

مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی

ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب

ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو

کچھ اپنے ساز نفس کی نہ قدر کی تو نے

کہ اس رباب سے بہتر کوئی رباب نہ تھا

یہ کون ہنس کے صحن چمن سے گزر گیا

اب تک ہیں پھول چاک گریباں کئے ہوئے

جو دے رہے ہو زمیں کو وہی زمیں دے گی

ببول بوئے تو کیسے گلاب نکلے گا

نہ جانے محبت کا انجام کیا ہے

میں اب ہر تسلی سے گھبرا رہا ہوں

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر

تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

اول اول جب مجھے جور آشنا سمجھا تھا میں

آج سمجھا ہوں جو سمجھا تھا بجا سمجھا تھا میں

آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج

عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن

جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا

یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو

تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور

میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا

رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی

سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے