Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asghar Gondvi's Photo'

اصغر گونڈوی

1884 - 1936 | گونڈہ, انڈیا

ممتاز قبل از جدید شاعر، صوفیانہ رنگ کی شاعری کے لیے معروف

ممتاز قبل از جدید شاعر، صوفیانہ رنگ کی شاعری کے لیے معروف

اصغر گونڈوی کے اشعار

11.8K
Favorite

باعتبار

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی

ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے

لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے

عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں

تیری صورت میں ہے کیا جو میری صورت میں نہیں

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی

یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

تشریح

کسی بھی شعر کی خوبصورتی اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ کس قدر برجستگی کے ساتھ کہا گیا ہے۔ شعر جہاں تصنع یا آورد کا شکار ہوا، وہیں اس کا حسن ختم ہوجاتا ہے۔ مذکورہ شعر میں کمال کی برجستگی ہے، کچھ بھی تصنع آمیز نہیں، ایک فطری انداز اور رویہ ہے۔

یوں تو یہ شعر تمثیل کا ہے اور یہی اس شعر کے دونوں مصرعوں میں ہے بھی، لیکن اس سے پرے کچھ اور ہے جو اس شعر کے حسن میں اصلا اضافے کا سبب ہے۔ پہلے مصرعے میں جان پڑنے کا محاورہ اور دوسرے مصرعے میں لب کشا ہونے کا محاورہ ۔ جان پڑنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے تازگی آنا، رونق بڑھ جانا، کلیجہ ٹھنڈا ہونا وغیرہ ۔ یہ محاورہ عموماً کچھ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ فلاں کے محفل میں آنے سے جان پڑ گئی، بارش ہوئی تو سوکھی زمینوں میں جان پڑ گئی، دوا پڑتے ہی مرجھائے ہوئے پتوں میں جان پڑ گئی وغیرہ ۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو اس میں سبب اور مسبب دونوں کام کر رہا ہے یہ اور بات کہ یہاں مجاز مرسل کا کوئی قضیہ نہیں ہے۔ یہاں بطور شرط اور مشروط ہے۔ اسی سے محبوب کے مسکراہٹ کی تمیز ہوسکتی تھی، اسی سے بتایا جاسکتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ میں دلکشی کیوں ہے۔ مسکراتا تو ہر کوئی ہے مگر شاعر بتا رہا ہے کہ اس کا انداز جداگانہ کیوں ہے اگر یوں نہیں ہوتا تو کلیوں میں جان نہیں پڑتی۔ عام طور پر تمیز کے لیے موازنہ ، تقابل اور تفضیل کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن یہاں شاعر کی یہی انفرادیت ہے کہ اس نے ان سب کے بجائے محبوب کے مسکراہٹ کی تمیز کے لیے ایک الگ راستہ نکال لیا۔

لب کشا ہونا یہاں بطور محاورہ استعمال ہوا ہے۔ محاورے کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ فعل پر ختم ہوتا ہے اور اپنے مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے یہاں یہ شرائط موجود ہیں۔ اسی لیے لب کشا ہونے کا مفہوم صرف ہونٹ ہلانا یا کھولنا نہیں ہے بلکہ گفتگو کرنا اور بات کرنا ہے وگرنہ گلستان بنانے کا تصور، تصور ہی رہ جائے گا۔معنی کے اعتبار سے یہاں سیاقاً ایک اور قرینہ موجود ہے جسے آپ مجاز مرسل سے تعیبر کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں لب کشا یعنی سبب بول کر گفتگو یعنی مسبب مراد لیا گیا ہے۔ لفظ بنا دیا تو ایک طرح سے اعلانیہ اظہار ہے کہ یہاں مسبب موجود ہے کیونکہ کچھ بھی بنادینے کا تصور صرف مسبب سے ہی وابستہ ہوسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم گلستان بنا دینے کا مفہوم صرف یوں سمجھتے ہیں کہ اس نے گفتگو کی تو الفاظ کے اس قدر پھول بکھیرے کہ گلستان بن گیا مگر بات صرف اتنی نہیں ہے۔ ہر گفتگو کے لیے سماعت درکار ہوتی ہے اور محبوب بات کرے تو ہجوم لگنا بدیہی ہے یہی اصل اشارہ ہے۔ ورنہ محض گلستان بنا دینا گفتگو کا تو کوئی خاصہ نہیں۔ عام طور پر دیکھیں گے کہ اس طرح کے جتنے اشعار جہاں لب کشا ہونے کا تصور ہے ان میں بین السطور ہجوم کا معنی پوشیدہ ہوتا ہے جیسے علامہ اقبال کا یہ شعر:

کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو

لب کُشا ہو جا، سرودِ بربطِ عالم ہے تُو

سرود بربط عالم کا بین السطور کیا کہہ رہا ہے۔؟

سیف ازہر

جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا

پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں

عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں

ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

ہوتا ہے راز عشق و محبت انہیں سے فاش

آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں

اک ادا اک حجاب اک شوخی

نیچی نظروں میں کیا نہیں ہوتا

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے

کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے

بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا

وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے

مائل شعر و غزل پھر ہے طبیعت اصغرؔ

ابھی کچھ اور مقدر میں ہے رسوا ہونا

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے

سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی

کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے

چھٹ جائے اگر دامن کونین تو کیا غم

لیکن نہ چھٹے ہاتھ سے دامان محمد

مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے

میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں

زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا

ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں

نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں

وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا

جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا

اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں

ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے

ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے

اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی

جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں

میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں

رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے

یہ آستان یار ہے صحن حرم نہیں

جب رکھ دیا ہے سر تو اٹھانا نہ چاہیئے

حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو

پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں

لوگ مرتے بھی ہیں جیتے بھی ہیں بیتاب بھی ہیں

کون سا سحر تری چشم عنایت میں نہیں

نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں

ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی

میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی

جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا

داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں لیکن

اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل اپنا

اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے

رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لئے ہوئے

ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر

تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا

آلام روزگار کو آساں بنا دیا

جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا

اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

عارض نازک پہ ان کے رنگ سا کچھ آ گیا

ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کر دیا

مجھ کو خبر رہی نہ رخ بے نقاب کی

ہے خود نمود حسن میں شان حجاب کی

وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے

جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا

لذت سجدۂ ہائے شوق نہ پوچھ

ہائے وہ اتصال ناز و نیاز

بے محابا ہو اگر حسن تو وہ بات کہاں

چھپ کے جس شان سے ہوتا ہے نمایاں کوئی

قہر ہے تھوڑی سی بھی غفلت طریق عشق میں

آنکھ جھپکی قیس کی اور سامنے محمل نہ تھا

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری

جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے

روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں

جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا

مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں زاہد

بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں

کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے

ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے

کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار

نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے

اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف

ایسا حجاب چشم تماشا کہیں جسے

کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں

ہم التفات خاص سے بھی بد گماں رہے

بستر خاک پہ بیٹھا ہوں نہ مستی ہے نہ ہوش

ذرے سب ساکت و صامت ہیں ستارہ خاموش

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے

قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے

اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی

کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے