Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Baqi Siddiqui's Photo'

باقی صدیقی

1905 - 1972 | راول پنڈی, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل

پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل

باقی صدیقی کے اشعار

14.9K
Favorite

باعتبار

تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں

کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں

ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو

ہر نئے حادثے پہ حیرانی

پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی

اس بدلتے ہوئے زمانے میں

تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رہنے دو کہ اب تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے

برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں

زندگی کی بساط پر باقیؔ

موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

دوستی خون جگر چاہتی ہے

کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو

تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو

ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں

تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں

ہم سا پتھر بھی کوئی کیا ہوگا

ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر

جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو

راز سر بستہ ہے محفل تیری

جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہوگا

وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں

کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو

دل کو آنے لگا بسنے کا خیال

آگ جب گھر کو لگا دی ہم نے

دل میں جب بات نہیں رہ سکتی

کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں

یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں

اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی

تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو

تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے

اونچی دیوار کے لمبے سائے

ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں

اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم

عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے

اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

یہی رستہ ہے اب یہی منزل

اب یہیں دل کسی بہانے لگے

کس سے پوچھیں کہ وہ انداز نظر

کب تبسم ہوا کب تیر ہوا

رنگ دل رنگ نظر یاد آیا

تیرے جلووں کا اثر یاد آیا

وقت کا پتھر بھاری ہوتا جاتا ہے

ہم مٹی کی صورت دیتے جاتے ہیں

تیرے غم سے تو سکون ملتا ہے

اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو

جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو

ایک دیوار اٹھانے کے لیے

ایک دیوار گرا دیتے ہیں

ایک ہنستی ہوئی بدلی دیکھی

ایک جلتا ہوا گھر یاد آیا

آپ کو کارواں سے کیا مطلب

آپ تو میر کارواں ٹھہرے

دل کی دیوار گر گئی شاید

اپنی آواز کان میں آئی

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

کان پڑتی نہیں آواز کوئی

دل میں وہ شور بپا ہے اپنا

بند کلیوں کی ادا کہتی ہے

بات کرنے کے ہیں سو پیرائے

ہر یاد ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ

یہ محفل نوا ہے یہاں بولتے رہو

دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے

ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں

اور جا جا کے عرض حال کرو

لو سلام و پیام سے بھی گئے

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں

کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

آئے نہ پھر نظر کہیں جانے کدھر گئے

ان تک تو ساتھ گردش شام و سحر گئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے