Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ehsan Danish's Photo'

احسان دانش

1914 - 1982 | لاہور, پاکستان

بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر

بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر

احسان دانش کے اشعار

14.7K
Favorite

باعتبار

آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج

عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو

تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی

سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی

کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر

کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر

تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

تم سادہ مزاجی سے مٹے پھرتے ہو جس پر

وہ شخص تو دنیا میں کسی کا بھی نہیں ہے

میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی

مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی

جو دے رہے ہو زمیں کو وہی زمیں دے گی

ببول بوئے تو کیسے گلاب نکلے گا

اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو

اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا

زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی

آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں

ہاں آپ کو دیکھا تھا محبت سے ہمیں نے

جی سارے زمانے کے گنہ گار ہمیں تھے

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے

احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں

احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے

حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھ

اپنی اک طرز نظر ایجاد کر

نہ جانے محبت کا انجام کیا ہے

میں اب ہر تسلی سے گھبرا رہا ہوں

شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک

سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو

لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر

پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے

کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام

تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو

احسانؔ ایسا تلخ جواب وفا ملا

ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

ایسے انجان بنے بیٹھے ہو

تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے

اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں

لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا

بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے

ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر

خاک سے سینکڑوں اگے خورشید

ہے اندھیرا مگر چراغ تلے

میں جس رفتار سے طوفاں کی جانب بڑھتا جاتا ہوں

اسی رفتار سے نزدیک ساحل ہوتا جاتا ہے

ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب

ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو

یہ کون ہنس کے صحن چمن سے گزر گیا

اب تک ہیں پھول چاک گریباں کئے ہوئے

مرنے والے فنا بھی پردہ ہے

اٹھ سکے گر تو یہ حجاب اٹھا

دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت مے کدہ گئی

فرصت مے کشی تو ہے حسرت مے کشی نہیں

ستا لو مجھے زندگی میں ستا لو

کھلے گا پس مرگ احسان کیا تھا

سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور

میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا

ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں

شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو

مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر

بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو

کچھ اپنے ساز نفس کی نہ قدر کی تو نے

کہ اس رباب سے بہتر کوئی رباب نہ تھا

دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن

اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا

یہ اجالوں کے جزیرے یہ سرابوں کے دیار

سحر‌ و افسوں کے سوا جشن طرب کچھ بھی نہیں

کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن

جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا

فسون شعر سے ہم اس مہ گریزاں کو

خلاؤں سے سر کاغذ اتار لائے ہیں

بجز اس کے احسانؔ کو کیا سمجھئے

بہاروں میں کھویا ہوا اک شرابی

اول اول جب مجھے جور آشنا سمجھا تھا میں

آج سمجھا ہوں جو سمجھا تھا بجا سمجھا تھا میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے