Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fana Nizami Kanpuri's Photo'

فنا نظامی کانپوری

1922 - 1988 | کانپور, انڈیا

مقبول ترین شاعروں میں سے ایک، اپنے مخصوص ترنم کے لیے معروف

مقبول ترین شاعروں میں سے ایک، اپنے مخصوص ترنم کے لیے معروف

فنا نظامی کانپوری کے اشعار

21.8K
Favorite

باعتبار

اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے

مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے

ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے

کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

اک تجھ کو دیکھنے کے لیے بزم میں مجھے

اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا

رند جنت میں جا بھی چکے

واعظ محترم رہ گئے

رہتا ہے وہاں ذکر طہور و مئے کوثر

ہم آج سے کعبہ کو بھی مے خانہ کہیں گے

قید غم حیات بھی کیا چیز ہے فناؔ

راہ فرار مل نہ سکی عمر بھر پھرے

ترک وطن کے بعد ہی قدر وطن ہوئی

برسوں مری نگاہ میں دیوار و در پھرے

ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہیئے

لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا

گل تو گل خار تک چن لیے ہیں

پھر بھی خالی ہے گلچیں کا دامن

کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن

جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن

دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا

گھر کو لگا کے آگ یہ مہمان جائے گا

سب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں

مجھ کو مرے سکوت سے پہچان جائے گا

دنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن

انسان کی تلاش میں انسان جائے گا

آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا

موجوں کے اتحاد کا عالم نہ پوچھئے

قطرہ اٹھا اور اٹھ کے سمندر اٹھا لیا

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان

یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

یوں دکھاتا ہے آنکھیں ہمیں باغباں

جیسے گلشن پہ کچھ حق ہمارا نہیں

زندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فناؔ

راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد

میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لیے

ترک تعلقات کا احساس مر نہ جائے

وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے

وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے

غیرت اہل چمن کو کیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

جلوہ ہو تو جلوہ ہو پردہ ہو تو پردہ ہو

توہین تجلی ہے چلمن سے نہ جھانکا کر

بے تکلف وہ اوروں سے ہیں

ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے

کوئی پابند محبت ہی بتا سکتا ہے

ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے

میں چلا آیا ترا حسن تغافل لے کر

اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے

مجھے رتبۂ غم بتانا پڑے گا

اگر میرے پیچھے زمانہ پڑے گا

جب سفینہ موج سے ٹکرا گیا

ناخدا کو بھی خدا یاد آ گیا

سہتا رہا جفائے دوست کہتا رہا ادائے دوست

میرے خلوص نے مرا جینا محال کر دیا

اے جلوۂ جانانہ پھر ایسی جھلک دکھلا

حسرت بھی رہے باقی ارماں بھی نکل جائے

اس موج کی ٹکر سے ساحل بھی لرزتا ہے

کچھ روز جو طوفاں کی آغوش میں پل جائے

تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ

اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ

تو کچھ تو مرے ضبط محبت کا صلہ دے

ہنگام فناؔ دیدۂ پر نم کی طرح آ

دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے

یاد آتے ہو تم خود ہی ہم یاد نہیں کرتے

ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر

افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے

کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے

ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے

غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا

اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں

اے فناؔ رہزن کو بھی صدمہ ہوا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے