Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fana Nizami Kanpuri's Photo'

فنا نظامی کانپوری

1922 - 1988 | کانپور, انڈیا

مقبول ترین شاعروں میں سے ایک، اپنے مخصوص ترنم کے لیے معروف

مقبول ترین شاعروں میں سے ایک، اپنے مخصوص ترنم کے لیے معروف

فنا نظامی کانپوری کے اشعار

23.4K
Favorite

باعتبار

ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے

کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

اک تجھ کو دیکھنے کے لیے بزم میں مجھے

اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا

دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے

یاد آتے ہو تم خود ہی ہم یاد نہیں کرتے

کوئی پابند محبت ہی بتا سکتا ہے

ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے

کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے

ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے

ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر

افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے

زندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فناؔ

راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد

اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے

مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے

جب سفینہ موج سے ٹکرا گیا

ناخدا کو بھی خدا یاد آ گیا

سہتا رہا جفائے دوست کہتا رہا ادائے دوست

میرے خلوص نے مرا جینا محال کر دیا

میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لیے

ترک تعلقات کا احساس مر نہ جائے

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان

یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں

اے فناؔ رہزن کو بھی صدمہ ہوا

کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن

جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن

ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہیئے

لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا

اے جلوۂ جانانہ پھر ایسی جھلک دکھلا

حسرت بھی رہے باقی ارماں بھی نکل جائے

دنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن

انسان کی تلاش میں انسان جائے گا

موجوں کے اتحاد کا عالم نہ پوچھئے

قطرہ اٹھا اور اٹھ کے سمندر اٹھا لیا

دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا

گھر کو لگا کے آگ یہ مہمان جائے گا

سب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں

مجھ کو مرے سکوت سے پہچان جائے گا

آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا

غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا

وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے

وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے

ترک وطن کے بعد ہی قدر وطن ہوئی

برسوں مری نگاہ میں دیوار و در پھرے

بے تکلف وہ اوروں سے ہیں

ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے

یوں دکھاتا ہے آنکھیں ہمیں باغباں

جیسے گلشن پہ کچھ حق ہمارا نہیں

گل تو گل خار تک چن لیے ہیں

پھر بھی خالی ہے گلچیں کا دامن

قید غم حیات بھی کیا چیز ہے فناؔ

راہ فرار مل نہ سکی عمر بھر پھرے

جلوہ ہو تو جلوہ ہو پردہ ہو تو پردہ ہو

توہین تجلی ہے چلمن سے نہ جھانکا کر

رہتا ہے وہاں ذکر طہور و مئے کوثر

ہم آج سے کعبہ کو بھی مے خانہ کہیں گے

تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ

اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ

رند جنت میں جا بھی چکے

واعظ محترم رہ گئے

اس موج کی ٹکر سے ساحل بھی لرزتا ہے

کچھ روز جو طوفاں کی آغوش میں پل جائے

میں چلا آیا ترا حسن تغافل لے کر

اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے

غیرت اہل چمن کو کیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

تو کچھ تو مرے ضبط محبت کا صلہ دے

ہنگام فناؔ دیدۂ پر نم کی طرح آ

مجھے رتبۂ غم بتانا پڑے گا

اگر میرے پیچھے زمانہ پڑے گا

Recitation

بولیے