Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Mohammad Hadi Aziz Lakhnavi's Photo'

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

1882 - 1935 | لکھنؤ, انڈیا

لکھنو میں کلاسکی غزل کے ممتاز استاد شاعر

لکھنو میں کلاسکی غزل کے ممتاز استاد شاعر

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی کے اشعار

6.5K
Favorite

باعتبار

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے

رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا

زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی

کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا

خود چلے آؤ یا بلا بھیجو

رات اکیلے بسر نہیں ہوتی

لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار

دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا

جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی

اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا

ہجر کی رات کاٹنے والے

کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی

ہمیشہ تنکے ہی چنتے گزر گئی اپنی

مگر چمن میں کہیں آشیاں بنا نہ سکے

آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری

دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا

بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی

کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا

تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی

بات پر بات یاد آتی ہے

یہ تیری آرزو میں بڑھی وسعت نظر

دنیا ہے سب مری نگہ‌ انتظار میں

وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل

تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے

ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی

اب تو دن رات یاد آتی ہے

مانا کہ بزم حسن کے آداب ہیں بہت

جب دل پہ اختیار نہ ہو کیا کرے کوئی

شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا

یادگار‌ حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا

اتنا بھی بار خاطر گلشن نہ ہو کوئی

ٹوٹی وہ شاخ جس پہ مرا آشیانہ تھا

عزیزؔ منہ سے وہ اپنے نقاب تو الٹیں

کریں گے جبر اگر دل پہ اختیار رہا

دعائیں مانگی ہیں ساقی نے کھول کر زلفیں

بسان دست کرم ابر دجلہ بار برس

کبھی جنت کبھی دوزخ کبھی کعبہ کبھی دیر

عجب انداز سے تعمیر ہوا خانۂ دل

تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے جب سے

مجھے رونے کی عادت ہو گئی ہے

دل نہیں جب تو خاک ہے دنیا

اصل جو چیز تھی وہی نہ رہی

نزع کا وقت ہے بیٹھا ہے سرہانے کوئی

وقت اب وہ ہے کہ مرنا ہمیں منظور نہیں

دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے

میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت نکلی

بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے

دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے

اداسی اب کسی کا رنگ جمنے ہی نہیں دیتی

کہاں تک پھول برسائے کوئی گور غریباں پر

مصیبت تھی ہمارے ہی لئے کیوں

یہ مانا ہم جئے لیکن جئے کیوں

ہے دل میں جوش حسرت رکتے نہیں ہیں آنسو

رستی ہوئی صراحی ٹوٹا ہوا سبو ہوں

جب سے زلفوں کا پڑا ہے اس میں عکس

دل مرا ٹوٹا ہوا آئینہ ہے

تمام انجمن وعظ ہو گئی برہم

لئے ہوئے کوئی یوں ساغر شراب آیا

ہم تو دل ہی پر سمجھتے تھے بتوں کا اختیار

نسب کعبہ میں بھی اب تک ایک پتھر رہ گیا

بے پیے واعظ کو میری رائے میں

مسجد جامع میں جانا ہی نہ تھا

آپ جس دل سے گریزاں تھے اسی دل سے ملے

دیکھیے ڈھونڈھ نکالا ہے کہاں سے میں نے

اسی کو حشر کہتے ہیں جہاں دنیا ہو فریادی

یہی اے میر دیوان جزا کیا تیری محفل ہے

قتل اور مجھ سے سخت جاں کا قتل

تیغ دیکھو ذرا کمر دیکھو

اب چمن میں بھی کسی صورت سے جی لگتا نہیں

ہاں مگر جب تک قفس میں تھے قفس بدنام تھا

ہمیشہ سے مزاج حسن میں دقت پسندی ہے

مری دشواریاں آسان ہونا سخت مشکل ہے

مرے دہن میں اگر آپ کی زباں ہوتی

تو پھر کچھ اور ہی عنوان داستاں ہوتا

میں تو ہستی کو سمجھتا ہوں سراسر اک گناہ

پاک دامانی کا دعویٰ ہو تو کس بنیاد پر

پھوٹ نکلا زہر سارے جسم میں

جب کبھی آنسو ہمارے تھم گئے

بنی ہیں شہر آشوب تمنا

خمار آلودہ آنکھیں رات بھر کی

دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے

سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے

قفس میں جی نہیں لگتا ہے آہ پھر بھی مرا

یہ جانتا ہوں کہ تنکا بھی آشیاں میں نہیں

تقلید اب میں حضرت واعظ کی کیوں کروں

ساقی نے دے دیا مجھے فتویٰ جواز کا

منزل ہستی میں اک یوسف کی تھی مجھ کو تلاش

اب جو دیکھا کارواں کا کارواں ملتا نہیں

یہ مشورہ بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے

کہ اب مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے

سبق آ کے گور غریباں سے لے لو

خموشی مدرس ہے اس انجمن میں

تری کوشش ہم اے دل سعئ لا حاصل سمجھتے ہیں

سر منزل تجھے بیگانۂ منزل سمجھتے ہیں

حسن آراستہ قدرت کا عطیہ ہے مگر

کیا مرا عشق جگر سوز خدا داد نہیں

حادثات دہر میں وابستۂ ارباب درد

لی جہاں کروٹ کسی نے انقلاب آ ہی گیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے