Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Mohammad Hadi Aziz Lakhnavi's Photo'

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

1882 - 1935 | لکھنؤ, انڈیا

لکھنو میں کلاسکی غزل کے ممتاز استاد شاعر

لکھنو میں کلاسکی غزل کے ممتاز استاد شاعر

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی کے اشعار

6.8K
Favorite

باعتبار

آپ جس دل سے گریزاں تھے اسی دل سے ملے

دیکھیے ڈھونڈھ نکالا ہے کہاں سے میں نے

پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے

رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا

یہ مشورہ بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے

کہ اب مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے

سبق آ کے گور غریباں سے لے لو

خموشی مدرس ہے اس انجمن میں

مجھ کو کعبہ میں بھی ہمیشہ شیخ

یاد ایام بت پرستی تھی

ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی

اب تو دن رات یاد آتی ہے

بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے

دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے

ہمیشہ سے مزاج حسن میں دقت پسندی ہے

مری دشواریاں آسان ہونا سخت مشکل ہے

شمعیں افسردہ جہاں پھول ہیں پژمردہ جہاں

دل کو اس گور غریباں میں پکارا ہوتا

دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے

سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے

مرے دہن میں اگر آپ کی زباں ہوتی

تو پھر کچھ اور ہی عنوان داستاں ہوتا

لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار

دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا

کبھی جنت کبھی دوزخ کبھی کعبہ کبھی دیر

عجب انداز سے تعمیر ہوا خانۂ دل

منزل ہستی میں اک یوسف کی تھی مجھ کو تلاش

اب جو دیکھا کارواں کا کارواں ملتا نہیں

قفس میں جی نہیں لگتا ہے آہ پھر بھی مرا

یہ جانتا ہوں کہ تنکا بھی آشیاں میں نہیں

اسی کو حشر کہتے ہیں جہاں دنیا ہو فریادی

یہی اے میر دیوان جزا کیا تیری محفل ہے

دنیا کا خون دور محبت میں ہے سفید

آواز آ رہی ہے لب جوئے شیر سے

بے پیے واعظ کو میری رائے میں

مسجد جامع میں جانا ہی نہ تھا

مصیبت تھی ہمارے ہی لئے کیوں

یہ مانا ہم جئے لیکن جئے کیوں

میں تو ہستی کو سمجھتا ہوں سراسر اک گناہ

پاک دامانی کا دعویٰ ہو تو کس بنیاد پر

دل کے اجزا میں نہیں ملتا کوئی جزو نشاط

اس صحیفے سے کسی نے اک ورق کم کر دیا

تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی

بات پر بات یاد آتی ہے

خامۂ قدرت نے دل کا نام یہ کہہ کر لکھا

ہر جگہ اس لفظ کے معنی بدلتے جائیں گے

اتنا بھی بار خاطر گلشن نہ ہو کوئی

ٹوٹی وہ شاخ جس پہ مرا آشیانہ تھا

بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی

کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا

خود چلے آؤ یا بلا بھیجو

رات اکیلے بسر نہیں ہوتی

آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری

دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا

اے سوز عشق پنہاں اب قصہ مختصر ہے

اکسیر ہو چلا ہوں اک آنچ کی کسر ہے

دعائیں مانگی ہیں ساقی نے کھول کر زلفیں

بسان دست کرم ابر دجلہ بار برس

یہ تیری آرزو میں بڑھی وسعت نظر

دنیا ہے سب مری نگہ‌ انتظار میں

شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا

یادگار‌ حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا

دل نہیں جب تو خاک ہے دنیا

اصل جو چیز تھی وہی نہ رہی

واعظوں بنیاد کعبہ میں بتوں کی ہستیاں

ہم مسلماں ہو چکے اور تم مسلماں کر چکے

زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی

کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا

پھوٹ نکلا زہر سارے جسم میں

جب کبھی آنسو ہمارے تھم گئے

ہم تو دل ہی پر سمجھتے تھے بتوں کا اختیار

نسب کعبہ میں بھی اب تک ایک پتھر رہ گیا

تقلید اب میں حضرت واعظ کی کیوں کروں

ساقی نے دے دیا مجھے فتویٰ جواز کا

تمام انجمن وعظ ہو گئی برہم

لئے ہوئے کوئی یوں ساغر شراب آیا

وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل

تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے

تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے جب سے

مجھے رونے کی عادت ہو گئی ہے

ہے دل میں جوش حسرت رکتے نہیں ہیں آنسو

رستی ہوئی صراحی ٹوٹا ہوا سبو ہوں

ہجر کی رات کاٹنے والے

کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی

اداسی اب کسی کا رنگ جمنے ہی نہیں دیتی

کہاں تک پھول برسائے کوئی گور غریباں پر

مانا کہ بزم حسن کے آداب ہیں بہت

جب دل پہ اختیار نہ ہو کیا کرے کوئی

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

بنی ہیں شہر آشوب تمنا

خمار آلودہ آنکھیں رات بھر کی

حقارت سے نہ دیکھو ساکنان خاک کی بستی

کہ اک دنیا ہے ہر ذرہ ان اجزائے پریشاں کا

جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی

اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا

تہ میں دریائے محبت کے تھی کیا چیز عزیزؔ

جو کوئی ڈوب گیا اس کو ابھرنے نہ دیا

حادثات دہر میں وابستۂ ارباب درد

لی جہاں کروٹ کسی نے انقلاب آ ہی گیا

Recitation

بولیے