مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی کے اشعار
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے
رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا
زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی
کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا
خود چلے آؤ یا بلا بھیجو
رات اکیلے بسر نہیں ہوتی
ہجر کی رات کاٹنے والے
کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی
-
موضوع : ہجر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار
دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا
جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی
اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا
ہمیشہ تنکے ہی چنتے گزر گئی اپنی
مگر چمن میں کہیں آشیاں بنا نہ سکے
آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری
دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا
بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی
کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا
تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی
بات پر بات یاد آتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا
یادگار حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا
تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے جب سے
مجھے رونے کی عادت ہو گئی ہے
ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی
اب تو دن رات یاد آتی ہے
یہ تیری آرزو میں بڑھی وسعت نظر
دنیا ہے سب مری نگہ انتظار میں
مانا کہ بزم حسن کے آداب ہیں بہت
جب دل پہ اختیار نہ ہو کیا کرے کوئی
وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل
تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے
اتنا بھی بار خاطر گلشن نہ ہو کوئی
ٹوٹی وہ شاخ جس پہ مرا آشیانہ تھا
مصیبت تھی ہمارے ہی لئے کیوں
یہ مانا ہم جئے لیکن جئے کیوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اداسی اب کسی کا رنگ جمنے ہی نہیں دیتی
کہاں تک پھول برسائے کوئی گور غریباں پر
دعائیں مانگی ہیں ساقی نے کھول کر زلفیں
بسان دست کرم ابر دجلہ بار برس
عزیزؔ منہ سے وہ اپنے نقاب تو الٹیں
کریں گے جبر اگر دل پہ اختیار رہا
نزع کا وقت ہے بیٹھا ہے سرہانے کوئی
وقت اب وہ ہے کہ مرنا ہمیں منظور نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دنیا کا خون دور محبت میں ہے سفید
آواز آ رہی ہے لب جوئے شیر سے
دل نہیں جب تو خاک ہے دنیا
اصل جو چیز تھی وہی نہ رہی
کبھی جنت کبھی دوزخ کبھی کعبہ کبھی دیر
عجب انداز سے تعمیر ہوا خانۂ دل
بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے
دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے
دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے
میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت نکلی
تمام انجمن وعظ ہو گئی برہم
لئے ہوئے کوئی یوں ساغر شراب آیا
حسن آراستہ قدرت کا عطیہ ہے مگر
کیا مرا عشق جگر سوز خدا داد نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہے دل میں جوش حسرت رکتے نہیں ہیں آنسو
رستی ہوئی صراحی ٹوٹا ہوا سبو ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے پیے واعظ کو میری رائے میں
مسجد جامع میں جانا ہی نہ تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے
سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے
قفس میں جی نہیں لگتا ہے آہ پھر بھی مرا
یہ جانتا ہوں کہ تنکا بھی آشیاں میں نہیں
جب سے زلفوں کا پڑا ہے اس میں عکس
دل مرا ٹوٹا ہوا آئینہ ہے
ہم تو دل ہی پر سمجھتے تھے بتوں کا اختیار
نسب کعبہ میں بھی اب تک ایک پتھر رہ گیا
تقلید اب میں حضرت واعظ کی کیوں کروں
ساقی نے دے دیا مجھے فتویٰ جواز کا
اسی کو حشر کہتے ہیں جہاں دنیا ہو فریادی
یہی اے میر دیوان جزا کیا تیری محفل ہے
ہمیشہ سے مزاج حسن میں دقت پسندی ہے
مری دشواریاں آسان ہونا سخت مشکل ہے
اب چمن میں بھی کسی صورت سے جی لگتا نہیں
ہاں مگر جب تک قفس میں تھے قفس بدنام تھا
حادثات دہر میں وابستۂ ارباب درد
لی جہاں کروٹ کسی نے انقلاب آ ہی گیا
مرے دہن میں اگر آپ کی زباں ہوتی
تو پھر کچھ اور ہی عنوان داستاں ہوتا
آپ جس دل سے گریزاں تھے اسی دل سے ملے
دیکھیے ڈھونڈھ نکالا ہے کہاں سے میں نے
پھوٹ نکلا زہر سارے جسم میں
جب کبھی آنسو ہمارے تھم گئے
قتل اور مجھ سے سخت جاں کا قتل
تیغ دیکھو ذرا کمر دیکھو
تری کوشش ہم اے دل سعئ لا حاصل سمجھتے ہیں
سر منزل تجھے بیگانۂ منزل سمجھتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سبق آ کے گور غریباں سے لے لو
خموشی مدرس ہے اس انجمن میں
بنی ہیں شہر آشوب تمنا
خمار آلودہ آنکھیں رات بھر کی
منزل ہستی میں اک یوسف کی تھی مجھ کو تلاش
اب جو دیکھا کارواں کا کارواں ملتا نہیں
میں تو ہستی کو سمجھتا ہوں سراسر اک گناہ
پاک دامانی کا دعویٰ ہو تو کس بنیاد پر