Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saqi Faruqi's Photo'

ساقی فاروقی

1936 - 2018 | لندن, برطانیہ

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

ساقی فاروقی کے اشعار

15
Favorite

باعتبار

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا

یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

ناموں کا اک ہجوم سہی میرے آس پاس

دل سن کے ایک نام دھڑکتا ضرور ہے

اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے

مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن

مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا

اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے

تیرے چہرے پہ اجالے کی سخاوت ایسی

اور مری روح میں نادار اندھیرا ایسا

پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر

بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر

اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے

یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے

وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے

جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا

تشریح

اس شعر کا مضمون ’’روح کی الجھن ‘‘ پر قائم ہے۔ روح کی جسم سے مناسبت خوب ہے۔ شاعر کا کہنا یہ ہے کہ وہ یعنی اس کا محبوب اس کی روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے۔ یعنی میری روح کس الجھن میں ہے اسے خوب معلوم ہے۔ میں یہ سوچتا تھا کہ وہ صرف میری روح کی الجھن کا مداوا کرے گا مگر وہ تو میری جسم کی پیاس بجھانے پر بھی راضی ہوا۔ دوسرے مصرعے میں لفظ’’ بھی‘‘ کافی معنی خیز ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کا محبوب اگرچہ یہ جانتا ہے کہ وہ روح کی الجھن میں مبتلا ہے اور روح اور جسم میں ایک نوع کا تضاد ہے۔ جس سے یہ مفہوم برآمد ہوتا ہے کہ میرے محبوب کو معلوم تھا کہ اصل میں میری روح کی الجھن کی وجہ جسم کی پیاس ہی ہے مگر محبوب نے روح کی جگہ اس کے جسم کی پیاس بجھانے پر رضامندی ظاہر کی۔

شفق سوپوری

ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے

یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا

مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی محبت نے

یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا

تم اور کسی کے ہو تو ہم اور کسی کے

اور دونوں ہی قسمت کی شکایت نہیں کرتے

خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا

کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر

راستہ دے کہ محبت میں بدن شامل ہے

میں فقط روح نہیں ہوں مجھے ہلکا نہ سمجھ

یہ کیا طلسم ہے کیوں رات بھر سسکتا ہوں

وہ کون ہے جو دیوں میں جلا رہا ہے مجھے

مجھ میں سات سمندر شور مچاتے ہیں

ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے

تمام جسم کی عریانیاں تھیں آنکھوں میں

وہ میری روح میں اترا حجاب پہنے ہوئے

مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی

تجھ سے بچھڑ کے زندگی دنیا سے جا ملی

میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں

اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا

قتل کرنے کا ارادہ ہے مگر سوچتا ہوں

تو اگر آئے تو ہاتھوں میں جھجک پیدا ہو

میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا

ساقی مرے مزاج کا موسم نہیں ملا

میں ان سے بھی ملا کرتا ہوں جن سے دل نہیں ملتا

مگر خود سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے

دل ہی عیار ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے

ورنہ افسردہ ہواؤں میں بلاوا کیسا

مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے

وگرنہ پارسا و دین دار میں بھی تھا

میں اپنے شہر سے مایوس ہو کے لوٹ آیا

پرانے سوگ بسے تھے نئے مکانوں میں

تجھ سے ملنے کا راستہ بس ایک

اور بچھڑنے کے راستے ہیں بہت

دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال

اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی

آگ ہو دل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو

روح میں روشنی لہجے میں چمک پیدا ہو

میری آنکھوں میں انوکھے جرم کی تجویز تھی

صرف دیکھا تھا اسے اس کا بدن میلا ہوا

صبح تک رات کی زنجیر پگھل جائے گی

لوگ پاگل ہیں ستاروں سے الجھنا کیسا

وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے

مری یادوں میں اک بھولا ہوا چہرا بھی رہتا ہے

لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں

وقت اکیلا اسی سبب سے ہے

خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں

جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا

جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز

واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی

ڈوب جانے کا سلیقہ نہیں آیا ورنہ

دل میں گرداب تھے لہروں کی نظر میں ہم تھے

یہ کیسی بات ہوئی ہے کہ دیکھ کر خوش ہے

وہ آنسوؤں کے سمندر کے درمیان مجھے

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا

ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا

عجب کہ صبر کی میعاد بڑھتی جاتی ہے

یہ کون لوگ ہیں فریاد کیوں نہیں کرتے

میں اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھتا ہوں

میں بے وفا ہوں مگر بے خبر نہ جان مجھے

حادثہ یہ ہے کہ ہم جاں نہ معطر کر پائے

وہ تو خوش بو تھا اسے یوں بھی بکھر جانا تھا

نئے چراغ جلا یاد کے خرابے میں

وطن میں رات سہی روشنی منایا کر

روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش

اس امربیل کو اک دن کوئی دیوار ملے

ہم تنگنائے ہجر سے باہر نہیں گئے

تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے مر نہیں گئے

مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے

یہ سوچتا ہوا گرجا بلا رہا ہے مجھے

ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا

اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا

اس کے وارث نظر نہیں آئے

شاید اس لاش کے پتے ہیں بہت

میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے

جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے

وہ خدا ہے تو مری روح میں اقرار کرے

کیوں پریشان کرے دور کا بسنے والا

میں تو خدا کے ساتھ وفادار بھی رہا

یہ ذات کا طلسم مگر ٹوٹتا نہیں

مگر ان سیپیوں میں پانیوں کا شور کیسا تھا

سمندر سنتے سنتے کان بہرے کر لیے ہم نے

میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے

وہ بھی محتاج ملا وہ بھی سوالی نکلا

Recitation

بولیے