امیر مینائی کی ٹاپ ٢٠ شاعری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
تشریح
اس شعر میں غضب کا چونچال ہے۔ یہی چونچال اردو غزل کی روایت کا خاصہ ہے۔ آنکھیں دکھانا ذو معنی ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ صرف آنکھیں دکھاتے ہو یعنی محض آنکھوں کا نظارہ کراتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ صرف غصہ کرتے ہو کیونکہ آنکھیں دکھانا محاورہ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں جیسے گھور کر دیکھنا، ناراضگی کی نظر سے دیکھنا، گھرکی دینا، اشارہ و کنایہ کرنا، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرنا۔ مگر شعر میں جو طنزیہ پیرایہ دکھائی دیتا ہے اس کی مناسبت سے آنکھیں دکھانے کو گھرکی دینے یعنی غصے سے دیکھنے سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔
جوبن کے کئی معنی ہیں جیسے حسن و جمال، چڑھتی جوانی، عورت کا سینہ یعنی پستان۔ جب یہ کہا کہ وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے تو مراد سینے سے ہی ہے کیونکہ جب آنکھ دکھائی تو ظاہر ہے کہ چہرہ بھی دکھایا اور جب آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو گویا چڑھتی جوانی کا نظارہ بھی ہوا۔ اگر کوئی چیز جو شاعر کی دانست میں اچھامال ہے اور جسے باندھ کے رکھا گیا ہے تو وہ محبوب کا سینہ ہی ہوسکتا ہے۔
اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ تم مجھے صرف غصے سے آنکھیں دکھاتے ہو اور جو چیز دیکھنے کا میں متمنی ہوں اسے الگ سے باندھ کر رکھا ہے۔
شفق سوپوری
تشریح
اس شعر میں غضب کا چونچال ہے۔ یہی چونچال اردو غزل کی روایت کا خاصہ ہے۔ آنکھیں دکھانا ذو معنی ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ صرف آنکھیں دکھاتے ہو یعنی محض آنکھوں کا نظارہ کراتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ صرف غصہ کرتے ہو کیونکہ آنکھیں دکھانا محاورہ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں جیسے گھور کر دیکھنا، ناراضگی کی نظر سے دیکھنا، گھرکی دینا، اشارہ و کنایہ کرنا، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرنا۔ مگر شعر میں جو طنزیہ پیرایہ دکھائی دیتا ہے اس کی مناسبت سے آنکھیں دکھانے کو گھرکی دینے یعنی غصے سے دیکھنے سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔
جوبن کے کئی معنی ہیں جیسے حسن و جمال، چڑھتی جوانی، عورت کا سینہ یعنی پستان۔ جب یہ کہا کہ وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے تو مراد سینے سے ہی ہے کیونکہ جب آنکھ دکھائی تو ظاہر ہے کہ چہرہ بھی دکھایا اور جب آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو گویا چڑھتی جوانی کا نظارہ بھی ہوا۔ اگر کوئی چیز جو شاعر کی دانست میں اچھامال ہے اور جسے باندھ کے رکھا گیا ہے تو وہ محبوب کا سینہ ہی ہوسکتا ہے۔
اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ تم مجھے صرف غصے سے آنکھیں دکھاتے ہو اور جو چیز دیکھنے کا میں متمنی ہوں اسے الگ سے باندھ کر رکھا ہے۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھیڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
-
موضوع : جفا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا
تشریح
شبِ وصال کی مناسبت سے شبِ جدائی نے بہت ہی دلچسپ تضاد پیدا کیا ہے اور دراصل اس شعر کے مضمون کی بنیاد ہی اسی تضاد پر ہے۔ شبِ وصال کے مختصر ہونے کا شکوہ اردو غزل کی روایت میں شامل ہے۔ اسی طرح سے شاعروں نے شبِ جدائی یا شبِ فراق کے طویل ہونے کا شکوہ بھی کیا ہے۔ اس شعر میں شبِ وصال یعنی ملاقات ، شبِ فراق کی مناسبت سے ’بہت کم‘، ’جوڑ دے کوئی ٹکڑا‘ اور آسمان کے تلازمات نے حسن پیدا کیا ہے۔آسمان کو اردو شعرا نے بہت سی چیزوں کا استعارہ یا علامت بنا کر استعمال کیا ہے۔ مثلاً آسمان کو تقدیر، خدا اور وقت وغیرہ کے استعاروں کے بطور استعمال کیا گیا ہے۔ اس شعر میں آسمان دراصل استعارہ ہے وقت کا۔
شاعر مخاطب سے کہتا ہے کہ محبوب سے ملاقات کی رات طوالت کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ یعنی جس رات محبوب سے وصل ہوتا ہے وہ چند لمحوں میں گزرجاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں شبِ جدائی یعنی محبوب سے جدائی کی رات بہت طویل ہوتی ہے۔ یعنی جب محبوب دور ہو تو رات کسی طور کٹتی نہیں۔ اس لئے اے مخاطب! تم وقت سے کہو کہ وہ جدائی کی رات سے کوئی حصہ کاٹ کے وصل کی رات میں ملادے۔ تاکہ عاشق اپنے محبوب کی قربت سے پوری طرح محظوظ ہو۔
شفق سوپوری
تشریح
شبِ وصال کی مناسبت سے شبِ جدائی نے بہت ہی دلچسپ تضاد پیدا کیا ہے اور دراصل اس شعر کے مضمون کی بنیاد ہی اسی تضاد پر ہے۔ شبِ وصال کے مختصر ہونے کا شکوہ اردو غزل کی روایت میں شامل ہے۔ اسی طرح سے شاعروں نے شبِ جدائی یا شبِ فراق کے طویل ہونے کا شکوہ بھی کیا ہے۔ اس شعر میں شبِ وصال یعنی ملاقات ، شبِ فراق کی مناسبت سے ’بہت کم‘، ’جوڑ دے کوئی ٹکڑا‘ اور آسمان کے تلازمات نے حسن پیدا کیا ہے۔آسمان کو اردو شعرا نے بہت سی چیزوں کا استعارہ یا علامت بنا کر استعمال کیا ہے۔ مثلاً آسمان کو تقدیر، خدا اور وقت وغیرہ کے استعاروں کے بطور استعمال کیا گیا ہے۔ اس شعر میں آسمان دراصل استعارہ ہے وقت کا۔
شاعر مخاطب سے کہتا ہے کہ محبوب سے ملاقات کی رات طوالت کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ یعنی جس رات محبوب سے وصل ہوتا ہے وہ چند لمحوں میں گزرجاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں شبِ جدائی یعنی محبوب سے جدائی کی رات بہت طویل ہوتی ہے۔ یعنی جب محبوب دور ہو تو رات کسی طور کٹتی نہیں۔ اس لئے اے مخاطب! تم وقت سے کہو کہ وہ جدائی کی رات سے کوئی حصہ کاٹ کے وصل کی رات میں ملادے۔ تاکہ عاشق اپنے محبوب کی قربت سے پوری طرح محظوظ ہو۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ