aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادا پر اشعار

حسن کی ساری نزاکت اداؤں

سے ہی ہے اور یہی ادائیں عاشق کیلئے جان لیوا ہوتی ہیں ۔ محبوب کے دیکھنے ،مسکرانے ، چلنے ، بات کرنے ، اورخاموش رہنے کی اداؤں کا بیان شاعری کا ایک اہم باب ہے ۔ ہم اچھے شعروں کا ایک انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

مرزا غالب

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

نظام رامپوری

حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا

حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا

اکبر الہ آبادی

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی

یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں

جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں

جلیل مانک پوری

پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا

روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا

آغا شاعر قزلباش

آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن

مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے

امیر مینائی

آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے

ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں

جلیل مانک پوری

نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف

ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

آرزو لکھنوی

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

اسد علی خان قلق

ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا

ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا

نوح ناروی

گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر

اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

میر تقی میر

ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی

دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو

بیخود دہلوی

زمانہ حسن نزاکت بلا جفا شوخی

سمٹ کے آ گئے سب آپ کی اداؤں میں

کالی داس گپتا رضا

اس ادا سے مجھے سلام کیا

ایک ہی آن میں غلام کیا

آصف الدولہ

ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے

اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے

داغؔ دہلوی

کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے

لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

کلیم عاجز

عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں

وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا

فصیح اکمل

خوب رو ہیں سیکڑوں لیکن نہیں تیرا جواب

دل ربائی میں ادا میں ناز میں انداز میں

لالہ مادھو رام جوہر

پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے

ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے

فراق گورکھپوری

وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا

جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

بیخود دہلوی

برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے

ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے

حسرتؔ موہانی

تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف

آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ

جلیل مانک پوری

لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے

قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے

اکبر الہ آبادی

یہ ادائیں یہ اشارے یہ حسیں قول و قرار

کتنے آداب کے پردے میں ہے انکار کی بات

خالد یوسف

مار ڈالا مسکرا کر ناز سے

ہاں مری جاں پھر اسی انداز سے

جلیل مانک پوری

ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ

اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ

داغؔ دہلوی

بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے

ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے

ابوالکلام آزاد

جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر

رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم

غمگین دہلوی

ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی

نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی

جلیل مانک پوری

بناوٹ وضع داری میں ہو یا بے ساختہ پن میں

ہمیں انداز وہ بھاتا ہے جس میں کچھ ادا نکلے

امداد علی بحر

بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد

جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے

بیخود دہلوی

پھول کہہ دینے سے افسردہ کوئی ہوتا ہے

سب ادائیں تری اچھی ہیں نزاکت کے سوا

جلیل مانک پوری

پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ

اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے

آغا شاعر قزلباش

کچھ اس ادا سے محبت شناس ہونا ہے

خوشی کے باب میں مجھ کو اداس ہونا ہے

راہل جھا

اے طراحدار عشوہ طراز دیار ناز

رخصت ہوا ہوں تیرے لیے دل گلی سے میں

جون ایلیا

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے