ادا پر اشعار
حسن کی ساری نزاکت اداؤں
سے ہی ہے اور یہی ادائیں عاشق کیلئے جان لیوا ہوتی ہیں ۔ محبوب کے دیکھنے ،مسکرانے ، چلنے ، بات کرنے ، اورخاموش رہنے کی اداؤں کا بیان شاعری کا ایک اہم باب ہے ۔ ہم اچھے شعروں کا ایک انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔
پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا
آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے
ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں
بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
-
موضوع : نگاہ
آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے
پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے
ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
-
موضوعات : دلاور 2 مزید
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں
وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا
-
موضوعات : دشمنیاور 1 مزید
پھول کہہ دینے سے افسردہ کوئی ہوتا ہے
سب ادائیں تری اچھی ہیں نزاکت کے سوا
ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی
دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو
اس ادا سے مجھے سلام کیا
ایک ہی آن میں غلام کیا
خوب رو ہیں سیکڑوں لیکن نہیں تیرا جواب
دل ربائی میں ادا میں ناز میں انداز میں
وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا
جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
-
موضوعات : سادگیاور 1 مزید
ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی
-
موضوع : نگاہ
جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر
رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم
-
موضوعات : شراباور 2 مزید
بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد
جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے
زمانہ حسن نزاکت بلا جفا شوخی
سمٹ کے آ گئے سب آپ کی اداؤں میں
پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ
اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے
مار ڈالا مسکرا کر ناز سے
ہاں مری جاں پھر اسی انداز سے
بناوٹ وضع داری میں ہو یا بے ساختہ پن میں
ہمیں انداز وہ بھاتا ہے جس میں کچھ ادا نکلے
ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا
یہ ادائیں یہ اشارے یہ حسیں قول و قرار
کتنے آداب کے پردے میں ہے انکار کی بات
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
-
موضوع : حیا
تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف
آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
-
موضوع : مشہور اشعار
اے طراحدار عشوہ طراز دیار ناز
رخصت ہوا ہوں تیرے لیے دل گلی سے میں
یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو