Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادا پر اشعار

حسن کی ساری نزاکت اداؤں

سے ہی ہے اور یہی ادائیں عاشق کیلئے جان لیوا ہوتی ہیں ۔ محبوب کے دیکھنے ،مسکرانے ، چلنے ، بات کرنے ، اورخاموش رہنے کی اداؤں کا بیان شاعری کا ایک اہم باب ہے ۔ ہم اچھے شعروں کا ایک انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔

پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا

روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا

آغا شاعر قزلباش

آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے

ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں

جلیل مانک پوری

بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے

ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے

ابوالکلام آزاد

آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن

مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے

امیر مینائی

پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے

ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے

فراق گورکھپوری

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

اسد علی خان قلق

لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے

قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے

اکبر الہ آبادی

کچھ اس ادا سے محبت شناس ہونا ہے

خوشی کے باب میں مجھ کو اداس ہونا ہے

راہل جھا

عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں

وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا

فصیح اکمل

پھول کہہ دینے سے افسردہ کوئی ہوتا ہے

سب ادائیں تری اچھی ہیں نزاکت کے سوا

جلیل مانک پوری

ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی

دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو

بیخود دہلوی

اس ادا سے مجھے سلام کیا

ایک ہی آن میں غلام کیا

آصف الدولہ

نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف

ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

آرزو لکھنوی

خوب رو ہیں سیکڑوں لیکن نہیں تیرا جواب

دل ربائی میں ادا میں ناز میں انداز میں

لالہ مادھو رام جوہر

وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا

جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

بیخود دہلوی

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

مرزا غالب

ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی

نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی

جلیل مانک پوری

کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے

لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

کلیم عاجز

جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر

رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم

غمگین دہلوی

بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد

جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے

بیخود دہلوی

زمانہ حسن نزاکت بلا جفا شوخی

سمٹ کے آ گئے سب آپ کی اداؤں میں

کالی داس گپتا رضا

پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ

اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے

آغا شاعر قزلباش

مار ڈالا مسکرا کر ناز سے

ہاں مری جاں پھر اسی انداز سے

جلیل مانک پوری

بناوٹ وضع داری میں ہو یا بے ساختہ پن میں

ہمیں انداز وہ بھاتا ہے جس میں کچھ ادا نکلے

امداد علی بحر

ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا

ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا

نوح ناروی

یہ ادائیں یہ اشارے یہ حسیں قول و قرار

کتنے آداب کے پردے میں ہے انکار کی بات

خالد یوسف

برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے

ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے

حسرتؔ موہانی

ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ

اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ

داغؔ دہلوی

حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا

حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا

اکبر الہ آبادی

تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف

آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ

جلیل مانک پوری

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

نظام رامپوری

اے طراحدار عشوہ طراز دیار ناز

رخصت ہوا ہوں تیرے لیے دل گلی سے میں

جون ایلیا

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی

یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں

جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں

جلیل مانک پوری

ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے

اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے

داغؔ دہلوی

گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر

اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے