Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hasrat Mohani's Photo'

حسرتؔ موہانی

1878 - 1951 | دلی, انڈیا

مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور

مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور

حسرتؔ موہانی کے اشعار

73.9K
Favorite

باعتبار

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

آرزو تیری برقرار رہے

دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال

دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں

دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا

برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی

بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اقرار ہے کہ دل سے تمہیں چاہتے ہیں ہم

کچھ اس گناہ کی بھی سزا ہے تمہارے پاس

کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر

ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

کہنے کو تو میں بھول گیا ہوں مگر اے یار

ہے خانۂ دل میں تری تصویر ابھی تک

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی

دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر

کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے

اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال

صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی

واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم

اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے

معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا

اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم

حسرتؔ کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری

سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے آج

برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے

ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے

جبیں پر سادگی نیچی نگاہیں بات میں نرمی

مخاطب کون کر سکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

چھپ نہیں سکتی چھپانے سے محبت کی نظر

پڑ ہی جاتی ہے رخ یار پہ حسرت کی نظر

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً

اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

غم آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتاؤں

مری ہمتوں کی پستی مرے شوق کی بلندی

پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا

میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے

اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی

تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ

بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا

جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور

تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے

ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق

پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ

میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

ملتے ہیں اس ادا سے کہ گویا خفا نہیں

کیا آپ کی نگاہ سے ہم آشنا نہیں

کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا

مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا

مرا عشق بھی خود غرض ہو چلا ہے

ترے حسن کو بے وفا کہتے کہتے

اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں

کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس

مانوس ہو چلا تھا تسلی سے حال دل

پھر تو نے یاد آ کے بدستور کر دیا

مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے

جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے

شکوۂ غم ترے حضور کیا

ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ

نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا

گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں

بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

پیغام حیات جاوداں تھا

ہر نغمۂ کرشن بانسری کا

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں

ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا

یہ وہم کہیں تم کو گنہ گار نہ کر دے

Recitation

بولیے