Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صابر ظفر کے اشعار

5.3K
Favorite

باعتبار

شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا

زندگی میں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا

میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہے

کواڑ رات کو گھر کا اگر کھلا رہ جائے

عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ رہا

جانے کیا لفظ تھے جو ہم سے نہ تحریر ہوئے

کچھ بے ٹھکانہ کرتی رہیں ہجرتیں مدام

کچھ میری وحشتوں نے مجھے در بدر کیا

خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول

ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول

نہ انتظار کرو ان کا اے عزا دارو

شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے

شکایت اس سے نہیں اپنے آپ سے ہے مجھے

وہ بے وفا تھا تو میں آس کیوں لگا بیٹھا

صبح کی سیر کی کرتا ہوں تمنا شب بھر

دن نکلتا ہے تو بستر میں پڑا رہتا ہوں

وہ جاگ رہا ہو شاید اب تک

یہ سوچ کے میں بھی جاگتا ہوں

بے وفا لوگوں میں رہنا تری قسمت ہی سہی

ان میں شامل میں ترا نام نہ ہونے دوں گا

ملوں تو کیسے ملوں بے طلب کسی سے میں

جسے ملوں وہ کہے مجھ سے کوئی کام تھا کیا

وہ کیوں نہ روٹھتا میں نے بھی تو خطا کی تھی

بہت خیال رکھا تھا بہت وفا کی تھی

نئے کپڑے بدل اور بال بنا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں

کوئی چھوڑ گیا یہ شہر تو کیا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں

ظفرؔ ہے بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں

کھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے

بدن نے چھوڑ دیا روح نے رہا نہ کیا

میں قید ہی میں رہا قید سے نکل کے بھی

نظر سے دور ہیں دل سے جدا نہ ہم ہیں نہ تم

گلہ کریں بھی تو کیا بے وفا نہ ہم ہیں نہ تم

کیسے کریں بندگی ظفرؔ واں

بندوں کی جہاں خدائیاں ہیں

ہر شخص بچھڑ چکا ہے مجھ سے

کیا جانیے کس کو ڈھونڈھتا ہوں

عجب اک بے یقینی کی فضا ہے

یہاں ہونا نہ ہونا ایک سا ہے

میں نے گھاٹے کا بھی اک سودا کیا

جس سے جو وعدہ کیا پورا کیا

تمہیں تو قبر کی مٹی بھی اب پکارتی ہے

یہاں کے لوگ بھی اکتائے ہیں چلے جاؤ

اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے

محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی

ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفرؔ

میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا

کتنی بے سود جدائی ہے کہ دکھ بھی نہ ملا

کوئی دھوکہ ہی وہ دیتا کہ میں پچھتا سکتا

اپنی یادیں اس سے واپس مانگ کر

میں نے اپنے آپ کو یکجا کیا

بنا ہوا ہے مرا شہر قتل گاہ کوئی

پلٹ کے ماؤں کے لخت جگر نہیں آتے

ہر درجے پہ عشق کر کے دیکھا

ہر درجے میں بے وفائیاں ہیں

یہ زخم عشق ہے کوشش کرو ہرا ہی رہے

کسک تو جا نہ سکے گی اگر یہ بھر بھی گیا

اس سے بچھڑ کے ایک اسی کا حال نہیں میں جان سکا

ویسے خبر تو ہر پل مجھ تک دنیا بھر کی آتی رہی

پہلے بھی خدا کو مانتا تھا

اور اب بھی خدا کو مانتا ہوں

وہ لوگ آج خود اک داستاں کا حصہ ہیں

جنہیں عزیز تھے قصے کہانیاں اور پھول

میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں

جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے

یہ ابتدا تھی کہ میں نے اسے پکارا تھا

وہ آ گیا تھا ظفرؔ اس نے انتہا کی تھی

شاعری پھول کھلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے تو ظفرؔ

باغ ہی کوئی لگاتا کہ جہاں کھیلتے بچے جا کر

اے کاش خود سکوت بھی مجھ سے ہو ہم کلام

میں خامشی زدہ ہوں صدا چاہیئے مجھے

کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا

نیا کمرہ سجا نئی شمع جلا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں

نامہ بر کوئی نہیں ہے تو کسی لہر کے ہاتھ

بھیج ساحل کی طرف اپنی خبر پانی سے

یہاں ہے دھوپ وہاں سائے ہیں چلے جاؤ

یہ لوگ لینے تمہیں آئے ہیں چلے جاؤ

مڑ کے جو آ نہیں پایا ہوگا اس کوچے میں جا کے ظفرؔ

ہم جیسا بے بس ہوگا ہم جیسا تنہا ہوگا

سر شام لٹ چکا ہوں سر عام لٹ چکا ہوں

کہ ڈکیت بن چکے ہیں کئی شہر کے سپاہی

گزارتا ہوں جو شب عشق بے معاش کے ساتھ

تو صبح اشک مرے ناشتے پہ گرتے ہیں

کسی زنداں میں سوچنا ہے عبث

دہر ہم میں ہے یا کہ دہر میں ہم

وہ ایک بار بھی مجھ سے نظر ملائے اگر

تو میں اسے بھی کوئی مہرباں شمار کروں

علاج اہل ستم چاہئے ابھی سے ظفرؔ

ابھی تو سنگ ذرا فاصلے پہ گرتے ہیں

دور تک ایک خلا ہے سو خلا کے اندر

صرف تنہائی کی صورت ہی نظر آئے گی

پڑا نہ فرق کوئی پیرہن بدل کے بھی

لہو لہو ہی رہا جم کے بھی پگھل کے بھی

ظفرؔ وہاں کہ جہاں ہو کوئی بھی حد قائم

فقط بشر نہیں ہوتا خدا بھی ہوتا ہے

کسی خیال کی سرشاری میں جاری و ساری یاری میں

اپنے آپ کوئی آئے گا اور بن جائے گا مہمان

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے