Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saghar Siddiqui's Photo'

ساغر صدیقی

1928 - 1974 | لاہور, پاکستان

ساغر صدیقی کے اشعار

19.9K
Favorite

باعتبار

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں

اے دل بے قرار چپ ہو جا

جا چکی ہے بہار چپ ہو جا

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی

مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں

تم گئے رونق بہار گئی

تم نہ جاؤ بہار کے دن ہیں

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے

تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں

مر گئے جن کے چاہنے والے

ان حسینوں کی زندگی کیا ہے

اب کہاں ایسی طبیعت والے

چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

اے عدم کے مسافرو ہشیار

راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں

یہ کناروں سے کھیلنے والے

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

یہ زلف بردوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں

مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق

ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام

میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات

آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت

زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے

دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

رنگ اڑنے لگا ہے پھولوں کا

اب تو آ جاؤ! وقت نازک ہے

اب نہ آئیں گے روٹھنے والے

دیدۂ اشک بار چپ ہو جا

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی

ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا

غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں

لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار

کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں

اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجئے

خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں

زندگی کا وقار دیکھا ہے

اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں

ہیں گل کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے

مسکراؤ بہار کے دن ہیں

گل کھلاؤ بہار کے دن ہیں

جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو

عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو

تیری صورت جو اتفاق سے ہم

بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

تقدیر کے چہرہ کی شکن دیکھ رہا ہوں

آئینۂ حالات ہے دنیا تیری کیا ہے

ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام

اے غم دوراں غم دوراں تجھے میرا سلام

جو چمن کی حیات کو ڈس لے

اس کلی کو ببول کہتا ہوں

دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت

دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی

جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

زلف برہم کی جب سے شناسا ہوئی

زندگی کا چلن مجرمانہ ہوا

Recitation

بولیے