Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

تاباں عبد الحی

1715 - 1749 | دلی, انڈیا

شاعری کے علاوہ اپنی خوش شکلی کے لئے بھی مشہور ہیں۔ کم عمری میں وفات پائی۔

شاعری کے علاوہ اپنی خوش شکلی کے لئے بھی مشہور ہیں۔ کم عمری میں وفات پائی۔

تاباں عبد الحی کے اشعار

2.5K
Favorite

باعتبار

کس کس طرح کی دل میں گزرتی ہیں حسرتیں

ہے وصل سے زیادہ مزا انتظار کا

کئی فاقوں میں عید آئی ہے

آج تو ہو تو جان ہم آغوش

درد سر ہے خمار سے مجھ کو

جلد لے کر شراب آ ساقی

ایک بلبل بھی چمن میں نہ رہی اب کی فصل

ظلم ایسا ہی کیا تو نے اے صیاد کہ بس

جس کا گورا رنگ ہو وہ رات کو کھلتا ہے خوب

روشنائی شمع کی پھیکی نظر آتی ہے صبح

محبت تو مت کر دل اس بے وفا سے

دل اس بے وفا سے محبت تو مت کر

تم اس قدر جو نڈر ہو کے ظلم کرتے ہو

بتاں ہمارا تمہارا کوئی خدا بھی ہے

جب تلک رہے جیتا چاہئے ہنسے بولے

آدمی کو چپ رہنا موت کی نشانی ہے

آتش عشق میں جو جل نہ مریں

عشق کے فن میں وہ اناری ہیں

دل کی حسرت نہ رہی دل میں مرے کچھ باقی

ایک ہی تیغ لگا ایسی اے جلاد کہ بس

زاہد ہو اور تقویٰ عابد ہو اور مصلیٰ

مالا ہو اور برہمن صہبا ہو اور ہم ہوں

ہو روح کے تئیں جسم سے کس طرح محبت

طائر کو قفس سے بھی کہیں ہو ہے محبت

لے میری خبر چشم مرے یار کی کیوں کر

بیمار عیادت کرے بیمار کی کیوں کر

محفل کے بیچ سن کے مرے سوز دل کا حال

بے اختیار شمع کے آنسو ڈھلک پڑے

ہوا بھی عشق کی لگنے نہ دیتا میں اسے ہرگز

اگر اس دل پہ ہوتا ہائے کچھ بھی اختیار اپنا

تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے

آہ کیا چاہنا ایسا ہی برا ہوتا ہے

دیکھ قاصد کو مرے یار نے پوچھا تاباںؔ

کیا مرے ہجر میں جیتا ہے وہ غم ناک ہنوز

مجھے آتا ہے رونا ایسی تنہائی پہ اے تاباںؔ

نہ یار اپنا نہ دل اپنا نہ تن اپنا نہ جاں اپنا

خوان فلک پہ نعمت الوان ہے کہاں

خالی ہیں مہر و ماہ کی دونو رکابیاں

ملوں ہوں خاک جوں آئینہ منہ پر

تری صورت مجھے آتی ہے جب یاد

وہ تو سنتا نہیں کسی کی بات

اس سے میں حال کیا کہوں تاباںؔ

یہاں یار اور بردار کوئی نہیں کسی کا

دنیا کے بیچ تاباںؔ ہم کس سے دل لگاویں

تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوش

بلا سے تیری میں ناخوش ہوں یا خوش

یار روٹھا ہے مرا اس کو مناؤں کس طرح

منتیں کر پاؤں پڑ اس کے لے آؤں کس طرح

برا نہ مانیو میں پوچھتا ہوں اے ظالم

کہ بے کسوں کے ستائے سے کچھ بھلا بھی ہے

صحبت شیخ میں تو رات کو جایا مت کر

وہ سکھا دے گا تجھے جان نماز معکوس

کب پلاوے گا تو اے ساقی مجھے جام شراب

جاں بلب ہوں آرزو میں مے کی پیمانے کی طرح

مجھ سے بیمار ہے مرا ظالم

یہ ستم کس طرح سہوں تاباںؔ

میں ہو کے ترے غم سے ناشاد بہت رویا

راتوں کے تئیں کر کے فریاد بہت رویا

تاباںؔ زبس ہوائے جنوں سر میں ہے مرے

اب میں ہوں اور دشت ہے یہ سر ہے اور پہاڑ

آتا نہیں وہ یار ستم گر تو کیا ہوا

کوئی غم تو اس کا دل سے ہمارے جدا نہیں

ان بتوں کو تو مرے ساتھ محبت ہوتی

کاش بنتا میں برہمن ہی مسلماں کے عوض

یہ جو ہیں اہل ریا آج فقیروں کے بیچ

کل گنیں گے حمقا ان ہی کو پیروں کے بیچ

ہے کیا سبب کہ یار نہ آیا خبر کے تئیں

شاید کسی نے حال ہمارا کہا نہیں

آئنے کو تری صورت سے نہ ہو کیوں کر حیرت

در و دیوار تجھے دیکھ کے حیران ہے آج

کرتا ہے گر تو بت شکنی تو سمجھ کے کر

شاید کہ ان کے پردے میں زاہد خدا بھی ہو

نہ جا واعظ کی باتوں پر ہمیشہ مے کو پی تاباںؔ

عبث ڈرتا ہے تو دوزخ سے اک شرعی درکا ہے

کر قتل مجھے ان نے عالم میں بہت ڈھونڈا

جب مجھ سا نہ کوئی پایا جلاد بہت رویا

خدا دیوے اگر قدرت مجھے تو ضد ہے زاہد کی

جہاں تک مسجدیں ہیں میں بناؤں توڑ بت خانہ

قسمت میں کیا ہے دیکھیں جیتے بچیں کہ مر جائیں

قاتل سے اب تو ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں

تری بات لاوے جو پیغام بر

وہی ہے مرے حق میں روح الامیں

زاہد ترا تو دین سراسر فریب ہے

رشتے سے تیرے سبحہ کے زنار ہی بھلا

میں تو طالب دل سے ہوں گا دین کا

دولت دنیا مجھے مطلوب نہیں

آئینہ رو بہ رو رکھ اور اپنی چھب دکھانا

کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں

سنے کیوں کر وہ لبیک حرم کو

جسے ناقوس کی آئے صدا خوش

رند واعظ سے کیوں کہ سربر ہو

اس کی چھو، کی کتاب اور ہی ہے

دنیا کہ نیک و بد سے مجھے کچھ خبر نہیں

اتنا نہیں جہاں میں کوئی بے خبر کہ ہم

حرم کو چھوڑ رہوں کیوں نہ بت کدے میں شیخ

کہ یاں ہر ایک کو ہے مرتبہ خدائی کا

بعد مدت کے ماہرو آیا

کیوں نہ اس کے گلے لگوں تاباںؔ

وے شخص جن سے فخر جہاں کو تھا اب وے ہائے

ایسے گئے کہ ان کا کہیں نام ہی نہیں

Recitation

بولیے