مقبول شعر

آسان اور پسندیدہ کلام کا ذخیرہ

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

فیض احمد فیض

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

فیض احمد فیض

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

مرزا غالب

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

مرزا غالب

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

مرزا غالب

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

فیض احمد فیض

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

علامہ اقبال

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

مرزا غالب

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

فراق گورکھپوری

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

علامہ اقبال

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

مرزا غالب

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

بشیر بدر

تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا

وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

داغؔ دہلوی

عشق نازک مزاج ہے بے حد

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

اکبر الہ آبادی

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

جون ایلیا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

فیض احمد فیض

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

میر تقی میر

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

فیض احمد فیض

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

فراق گورکھپوری

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

احمد فراز

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

فراق گورکھپوری

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

داغؔ دہلوی

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد

دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے

اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

احمد فراز

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

مرزا غالب

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

علامہ اقبال

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

فیض احمد فیض

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

بشیر بدر

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ندا فاضلی

آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں

دل بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی

جلیل مانک پوری

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

مرزا غالب

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

بشیر بدر

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

نظام رامپوری

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

مرزا غالب

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

پروین شاکر

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

مرزا غالب

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے

فیض احمد فیض

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

مرزا غالب

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

جگر مراد آبادی

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

فراق گورکھپوری

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

تشریح

اس شعر کا مزاج غزل کے رویتی مزاج سے ملتا ہے۔ چونکہ فیض نے ترقی پسند فکر کی ترجمانی میں بھی اردو شعریات کی روایت کا پورا لحاظ رکھا لہٰذا ان کی تخلیقات میں اگرچہ علامتی سطح پر ترقی پسند سوچ کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے تاہم ان کی شعری دنیا میں اور بھی امکانات موجود ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہ مشہور شعر ہے۔ بادِ نو بہار کے معنی نئی بہار کی ہواہے۔ پہلے اس شعر کی تشریح ترقی پسند فکر کو مدِ نظر کرتے ہیں۔ فیض کی شکایت یہ رہی ہے کہ انقلاب رونما ہونے کے باوجود استحصال کی چکی میں پسنے والوں کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ اس شعر میں اگر بادِ نو بہار کو انقلاب کی علامت مان لیا جائے تو شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ گلشن (ملک، زمانہ وغیرہ) کا کاروبار تب تک نہیں چل سکتا جب تک کہ انقلاب اپنے صحیح معنوں میں نہیں آتا۔ اسی لئے وہ انقلاب یا بدلاؤ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ جب تم رونما ہوجاؤ گے تب پھولوں میں نئی بہار کی ہوا تازگی لائی گی۔ اور اس طرح سے چمن کا کاروبار چلے گا۔ دوسرے معنوں میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ تم اب آ بھی جاؤ تاکہ گلوں میں نئی بہار کی ہوا رنگ بھرے اور چمن کھل اٹھے۔

شفق سوپوری

تشریح

اس شعر کا مزاج غزل کے رویتی مزاج سے ملتا ہے۔ چونکہ فیض نے ترقی پسند فکر کی ترجمانی میں بھی اردو شعریات کی روایت کا پورا لحاظ رکھا لہٰذا ان کی تخلیقات میں اگرچہ علامتی سطح پر ترقی پسند سوچ کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے تاہم ان کی شعری دنیا میں اور بھی امکانات موجود ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہ مشہور شعر ہے۔ بادِ نو بہار کے معنی نئی بہار کی ہواہے۔ پہلے اس شعر کی تشریح ترقی پسند فکر کو مدِ نظر کرتے ہیں۔ فیض کی شکایت یہ رہی ہے کہ انقلاب رونما ہونے کے باوجود استحصال کی چکی میں پسنے والوں کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ اس شعر میں اگر بادِ نو بہار کو انقلاب کی علامت مان لیا جائے تو شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ گلشن (ملک، زمانہ وغیرہ) کا کاروبار تب تک نہیں چل سکتا جب تک کہ انقلاب اپنے صحیح معنوں میں نہیں آتا۔ اسی لئے وہ انقلاب یا بدلاؤ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ جب تم رونما ہوجاؤ گے تب پھولوں میں نئی بہار کی ہوا تازگی لائی گی۔ اور اس طرح سے چمن کا کاروبار چلے گا۔ دوسرے معنوں میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ تم اب آ بھی جاؤ تاکہ گلوں میں نئی بہار کی ہوا رنگ بھرے اور چمن کھل اٹھے۔

شفق سوپوری

فیض احمد فیض

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

خمارؔ بارہ بنکوی

دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے

جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے

داغؔ دہلوی

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

جگر مراد آبادی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے