Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مقبول شعر

آسان اور پسندیدہ کلام کا ذخیرہ

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

علامہ اقبال

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

فیض احمد فیض

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

مرزا غالب

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

علامہ اقبال

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

مرزا غالب

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

مرزا غالب

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

علامہ اقبال

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر

یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو

نامعلوم

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

مرزا غالب

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

بشیر بدر

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

علامہ اقبال

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

مرزا غالب

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

مرزا غالب

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

مرزا غالب

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

مرزا غالب

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

جون ایلیا

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

مرزا غالب

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

نامعلوم

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

منشی امیر اللہ تسلیم

ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

بہادر شاہ ظفر

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

احمد فراز

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

مرزا غالب

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

فیض احمد فیض

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

فیض احمد فیض

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مہتاب رائے تاباں

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

مرزا غالب

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

میر طاہر علی رضوی

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

مرزا غالب

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

بشیر بدر

اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں

جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

دواکر راہی

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

ساحر لدھیانوی

شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے

دل ٹوٹے آواز نہ آئے

حفیظ میرٹھی

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

علامہ اقبال

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ "تیر نیم کش" کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔

دیکھا جائے تو بنیادی طور پر "تیر نیم کش" کے معنی "ادھ کھنچا تیر" ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو "محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔

یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ "تیر نیم کش" وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "تیر نیم کش" وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔

پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً "جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں" ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ " کوئی میرے دل سے پوچھے" کے بعد " یہ خلش کہاں سے ہوتی" کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔

اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک "تیر نیم کش" سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔

سیف ازہر

تشریح

یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ "تیر نیم کش" کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔

دیکھا جائے تو بنیادی طور پر "تیر نیم کش" کے معنی "ادھ کھنچا تیر" ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو "محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔

یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ "تیر نیم کش" وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "تیر نیم کش" وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔

پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً "جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں" ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ " کوئی میرے دل سے پوچھے" کے بعد " یہ خلش کہاں سے ہوتی" کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔

اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک "تیر نیم کش" سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔

سیف ازہر

مرزا غالب

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

مرزا غالب

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

علامہ اقبال

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

علامہ اقبال

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

مرزا غالب

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ندا فاضلی

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

پروین شاکر

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

علامہ اقبال

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض احمد فیض

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مرزا غالب

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

نظام رامپوری
بولیے