Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے وفائی پر اشعار

شاعری میں معشوق اپنی

جن صفات کے ساتھ بن کر تیار ہوتا ہے ان میں بے وفائی اس کی بنیادی اور بہت مستحکم صفت ہے۔ اگر معشوق ہے تو وہ بے وفا بھی ہے اور ظلم وستم کرنے والا بھی ۔ عاشق اس بے وفائی کے دکھ جھیلتا ہے، گلے شکوے کرتا ہے اور بالآخر یہی سب اس کے عاشق ہونے کی پہچان ہو جاتی ہے۔ شاعروں نے بےوفائی کے اس قصے کو تسلسل اور بہت دلچسپی کے ساتھ لکھا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور اس میں چھپی ہوئی اپنی کہانیوں کی تلاش کیجئے۔

جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا

بارہا آزما کے دیکھ لیا

داغؔ دہلوی

یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا

مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا

عبد الحمید عدم

میرے علاوہ اسے خود سے بھی محبت ہے

اور ایسا کرنے سے وہ بے وفا نہیں ہوتی

بال موہن پانڈے

میں خاندان کی پابندیوں سے واقف تھی

خدا کا شکر ہے اس شخص نے وفا نہیں کی

کومل جوئیہ

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

فراق گورکھپوری

تم جفا پر بھی تو نہیں قائم

ہم وفا عمر بھر کریں کیوں کر

بیدل عظیم آبادی

گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا

لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

محمد رفیع سودا

چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا

سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی

احمد فراز

اب زمانہ ہے بے وفائی کا

سیکھ لیں ہم بھی یہ ہنر شاید

امیتا پرسو رام میتا

حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

شہریار

اک عجب حال ہے کہ اب اس کو

یاد کرنا بھی بے وفائی ہے

جون ایلیا

تم کسی کے بھی ہو نہیں سکتے

تم کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

امیر رضا مظہری

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

بشیر بدر

دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے

بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں

مہتاب عالم

ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا

تم نے تو صرف بے وفائی کی

خلیل الرحمن اعظمی

تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں

ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا

بہادر شاہ ظفر

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

احمد فراز

اس بے وفا سے کر کے وفا مر مٹا رضاؔ

اک قصۂ طویل کا یہ اختصار ہے

آل رضا رضا

وہی تو مرکزی کردار ہے کہانی کا

اسی پہ ختم ہے تاثیر بے وفائی کی

اقبال اشہر

ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے

وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے

جمیل ملک

میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا

گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

قتیل شفائی

امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے

جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح

آتش بہاولپوری

یہ جفاؤں کی سزا ہے کہ تماشائی ہے تو

یہ وفاؤں کی سزا ہے کہ پئے دار ہوں میں

حامد مختار حامد

ہم اسے یاد بہت آئیں گے

جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

قتیل شفائی

ادھوری وفاؤں سے امید رکھنا

ہمارے بھی دل کی عجب سادگی ہے

امیتا پرسو رام میتا

عاشقی میں بہت ضروری ہے

بے وفائی کبھی کبھی کرنا

بشیر بدر

قائم ہے اب بھی میری وفاؤں کا سلسلہ

اک سلسلہ ہے ان کی جفاؤں کا سلسلہ

امیتا پرسو رام میتا

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز

گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

خواجہ میر درد

بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا

قہر ہوتا جو باوفا ہوتا

میر تقی میر

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اختر شیرانی

غلط روی کو تری میں غلط سمجھتا ہوں

یہ بے وفائی بھی شامل مری وفا میں ہے

عاصم واسطی

وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی

میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی

افتخار عارف

اڑ گئی یوں وفا زمانے سے

کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

داغؔ دہلوی

جو ملا اس نے بے وفائی کی

کچھ عجب رنگ ہے زمانے کا

مصحفی غلام ہمدانی

بے وفا تم با وفا میں دیکھیے ہوتا ہے کیا

غیظ میں آنے کو تم ہو مجھ کو پیار آنے کو ہے

آغا حجو شرف

نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت

نہ وفا ہی تمہیں آئی نہ جفا ہی آئی

بیخود بدایونی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے