بے وفائی پر اشعار
شاعری میں معشوق اپنی
جن صفات کے ساتھ بن کر تیار ہوتا ہے ان میں بے وفائی اس کی بنیادی اور بہت مستحکم صفت ہے۔ اگر معشوق ہے تو وہ بے وفا بھی ہے اور ظلم وستم کرنے والا بھی ۔ عاشق اس بے وفائی کے دکھ جھیلتا ہے، گلے شکوے کرتا ہے اور بالآخر یہی سب اس کے عاشق ہونے کی پہچان ہو جاتی ہے۔ شاعروں نے بےوفائی کے اس قصے کو تسلسل اور بہت دلچسپی کے ساتھ لکھا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور اس میں چھپی ہوئی اپنی کہانیوں کی تلاش کیجئے۔
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
-
موضوعات : محبتاور 1 مزید
ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
اک عجب حال ہے کہ اب اس کو
یاد کرنا بھی بے وفائی ہے
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
-
موضوعات : فریباور 1 مزید
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
میرے علاوہ اسے خود سے بھی محبت ہے
اور ایسا کرنے سے وہ بے وفا نہیں ہوتی
وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی
میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
-
موضوعات : فریباور 1 مزید
تم کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
تم کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
جو ملا اس نے بے وفائی کی
کچھ عجب رنگ ہے زمانے کا
یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا
مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا
گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا
ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا
تم نے تو صرف بے وفائی کی
جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا
بارہا آزما کے دیکھ لیا
وہی تو مرکزی کردار ہے کہانی کا
اسی پہ ختم ہے تاثیر بے وفائی کی
امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے
جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح
اب زمانہ ہے بے وفائی کا
سیکھ لیں ہم بھی یہ ہنر شاید
قائم ہے اب بھی میری وفاؤں کا سلسلہ
اک سلسلہ ہے ان کی جفاؤں کا سلسلہ
حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں
اس بے وفا سے کر کے وفا مر مٹا رضاؔ
اک قصۂ طویل کا یہ اختصار ہے
تم جفا پر بھی تو نہیں قائم
ہم وفا عمر بھر کریں کیوں کر
ادھوری وفاؤں سے امید رکھنا
ہمارے بھی دل کی عجب سادگی ہے
نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت
نہ وفا ہی تمہیں آئی نہ جفا ہی آئی
بے وفا تم با وفا میں دیکھیے ہوتا ہے کیا
غیظ میں آنے کو تم ہو مجھ کو پیار آنے کو ہے
غلط روی کو تری میں غلط سمجھتا ہوں
یہ بے وفائی بھی شامل مری وفا میں ہے
یہ جفاؤں کی سزا ہے کہ تماشائی ہے تو
یہ وفاؤں کی سزا ہے کہ پئے دار ہوں میں
میں خاندان کی پابندیوں سے واقف تھی
خدا کا شکر ہے اس شخص نے وفا نہیں کی
کسی فرد محبت سے بھلا امید کیا رکھنا
محبت بے وفا تھی بے وفا ہے بے وفا ہوگی