Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jaun Eliya's Photo'

جون ایلیا

1931 - 2002 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور

پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور

جون ایلیا کے اشعار

509.9K
Favorite

باعتبار

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں

اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ

تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

کیا ستم ہے کہ اب تری صورت

غور کرنے پہ یاد آتی ہے

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے

تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں

وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا

جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے

اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر

اب کسے رات بھر جگاتی ہے

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا

وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی

کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے

اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

میں رہا عمر بھر جدا خود سے

یاد میں خود کو عمر بھر آیا

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں

اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے

جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

یاد اسے انتہائی کرتے ہیں

سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں

وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا

آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں

جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

اے شخص میں تیری جستجو سے

بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ

وصل سے انتظار اچھا تھا

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی

آپ مجھ کو منا لیا کیجے

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے

غالباً میں کسی کو بھول گیا

اک عجب حال ہے کہ اب اس کو

یاد کرنا بھی بے وفائی ہے

کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا

اتنا آسان ہے پتا میرا

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری

تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں

یہ مرا طور زندگی ہی نہیں

اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو

کچھ نہیں آسمان میں رکھا

میں جو ہوں جونؔ ایلیا ہوں جناب

اس کا بے حد لحاظ کیجئے گا

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں

آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

آج مجھ کو بہت برا کہہ کر

آپ نے نام تو لیا میرا

ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں

اپنی حالت تباہ کی جائے

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں

تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے