تشنگی پر اشعار
کلاسیکی شاعری میں تشنگی
کا لفظ میخانے اورساقی کےموضوع سے وابستہ ہے۔ شراب پینے والے کے مقدرمیں ازلی تشنگی ہے وہ جتنی شراب پیتا ہے اتنی ہی طلب اورتشنگی بڑھتی جاتی ہے ۔ یہ شراب جوتشنگی بڑھاتی ہے معشوق کی آنکھوں کا استعارہ بھی ہے ۔ تشنگی اورپیاس کا لفظ جدید شاعری میں کربلا کے سیاق میں کثرت سے برتا گیا ہےاوراس موضوع میں بہت سی نئی جہتوں کا اضافہ ہوا ہے ۔
کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں
آج پی کر بھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی
لطف میں تیرے کہیں کوئی کمی ہے ساقی
وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے
پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے
کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے
دو دریا بھی جب آپس میں ملتے ہیں
دونوں اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں
تم اس کے پاس ہو جس کو تمہاری چاہ نہ تھی
کہاں پہ پیاس تھی دریا کہاں بنایا گیا
-
موضوعات : پانیاور 1 مزید
ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر
لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا
-
موضوعات : دلاور 2 مزید
پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی
ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں
-
موضوعات : ساقیاور 1 مزید
ایسی پیاس اور ایسا صبر
دریا پانی پانی ہے
-
موضوعات : پانیاور 1 مزید
کھینچ لائی جانب دریا ہمیں بھی تشنگی
اب گلوئے خشک کا خنجر پہ رم ہونے کو ہے
ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب
مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب
حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے
پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے
تھا زہر کو ہونٹوں سے لگانا ہی مناسب
ورنہ یہ مری تشنہ لبی کم نہیں ہوتی
وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی
یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
-
موضوعات : ساحلاور 1 مزید
تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے
مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے
اک جنم کے پیاسے بھی سیر ہوں تو ہم جانیں
یوں تو رحمت یزداں چار سو برستی ہے
-
موضوعات : بارشاور 1 مزید
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے
-
موضوعات : ساقیاور 1 مزید
پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھ دجلے بنا فرات بنا
پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر
بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر
جسے بھی پیاس بجھانی ہو میرے پاس رہے
کبھی بھی اپنے لبوں سے چھلکنے لگتا ہوں
پھر اس کے بعد ہمیں تشنگی رہے نہ رہے
کچھ اور دیر مروت سے کام لے ساقی
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
ساقیا تشنگی کی تاب نہیں
زہر دے دے اگر شراب نہیں
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
-
موضوعات : شراباور 1 مزید
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں