Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تشنگی پر اشعار

کلاسیکی شاعری میں تشنگی

کا لفظ میخانے اورساقی کےموضوع سے وابستہ ہے۔ شراب پینے والے کے مقدرمیں ازلی تشنگی ہے وہ جتنی شراب پیتا ہے اتنی ہی طلب اورتشنگی بڑھتی جاتی ہے ۔ یہ شراب جوتشنگی بڑھاتی ہے معشوق کی آنکھوں کا استعارہ بھی ہے ۔ تشنگی اورپیاس کا لفظ جدید شاعری میں کربلا کے سیاق میں کثرت سے برتا گیا ہےاوراس موضوع میں بہت سی نئی جہتوں کا اضافہ ہوا ہے ۔

کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی

اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی

آج پی کر بھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی

لطف میں تیرے کہیں کوئی کمی ہے ساقی

آل احمد سرور

وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے

پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے

محسن اسرار

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو

شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

قیصر الجعفری

دو دریا بھی جب آپس میں ملتے ہیں

دونوں اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں

فارغ بخاری

تم اس کے پاس ہو جس کو تمہاری چاہ نہ تھی

کہاں پہ پیاس تھی دریا کہاں بنایا گیا

یاسر خان انعام

ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر

لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا

خواجہ میر درد

پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی

ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں

نامعلوم

ایسی پیاس اور ایسا صبر

دریا پانی پانی ہے

وکاس شرما راز

ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب

مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب

شیخ ظہور الدین حاتم

حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے

پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے

فیصل عجمی

تھا زہر کو ہونٹوں سے لگانا ہی مناسب

ورنہ یہ مری تشنہ لبی کم نہیں ہوتی

عقیل نعمانی

وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی

یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے

نامعلوم

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

شکیب جلالی

تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے

مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے

قمر عباس قمر

روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے

مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

داغؔ دہلوی

پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی

لاکھ دجلے بنا فرات بنا

غلام محمد قاصر

پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر

بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر

ساقی فاروقی

جسے بھی پیاس بجھانی ہو میرے پاس رہے

کبھی بھی اپنے لبوں سے چھلکنے لگتا ہوں

فرحت احساس

پھر اس کے بعد ہمیں تشنگی رہے نہ رہے

کچھ اور دیر مروت سے کام لے ساقی

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

آنس معین

ساقیا تشنگی کی تاب نہیں

زہر دے دے اگر شراب نہیں

داغؔ دہلوی

اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں

جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

دواکر راہی

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

راحت اندوری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے