Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Ghalib's Photo'

مرزا غالب

1797 - 1869 | دلی, انڈیا

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

مرزا غالب کی ٹاپ ٢٠ شاعری

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

درد منت کش دوا نہ ہوا

میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ "تیر نیم کش" کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔

دیکھا جائے تو بنیادی طور پر "تیر نیم کش" کے معنی "ادھ کھنچا تیر" ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو "محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔

یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ "تیر نیم کش" وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "تیر نیم کش" وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔

پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً "جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں" ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ " کوئی میرے دل سے پوچھے" کے بعد " یہ خلش کہاں سے ہوتی" کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔

اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک "تیر نیم کش" سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔

سیف ازہر

تشریح

یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ "تیر نیم کش" کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔

دیکھا جائے تو بنیادی طور پر "تیر نیم کش" کے معنی "ادھ کھنچا تیر" ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو "محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔

یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ "تیر نیم کش" وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "تیر نیم کش" وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔

پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً "جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں" ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ " کوئی میرے دل سے پوچھے" کے بعد " یہ خلش کہاں سے ہوتی" کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔

اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک "تیر نیم کش" سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔

سیف ازہر

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے