Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shahzad Ahmad's Photo'

شہزاد احمد

1932 - 2012 | لاہور, پاکستان

نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

شہزاد احمد کے اشعار

24.9K
Favorite

باعتبار

اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں

آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

ٹھہر گئی ہے طبیعت اسے روانی دے

زمین پیاس سے مرنے لگی ہے پانی دے

جو سامنے تھا اس کے خد و خال نہیں یاد

وہ یاد رہا جس کو ذرا دیکھ لیا ہے

میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا

دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے

بگڑی ہوئی اس شہر کی حالت بھی بہت ہے

جاؤں بھی کہاں اس سے محبت بھی بہت ہے

ہر دم تری شبیہ تھی آنکھوں کے سامنے

تنہا بھی ہم نہیں تھے ترے ساتھ بھی نہ تھے

کرو بے نور محفل امروز

تربتوں پر دیے جلاتے رہو

ذرا سا غم ہوا اور رو دیے ہم

بڑی نازک طبیعت ہو گئی ہے

تو کچھ بھی ہو کب تک تجھے ہم یاد کریں گے

تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا

عمر جتنی بھی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹی

اور اب سوچتا ہوں اس کا بھروسہ کیا تھا

خود پر بھی کھولیے نہ کبھی دل کی واردات

آئینہ سامنے ہو تو چہرہ چھپائیے

یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے

بزم میں میرا گلا سب نے کیا میرے بعد

اک آگ پھر بھڑک اٹھی ہے دیدہ و دل میں

کچھ اشک پھر سر مژگاں دکھائی دیتے ہیں

کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں

جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی

دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر

آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

جس سے دو روز بھی کھل کر نہ ملاقات ہوئی

مدتوں بعد ملے بھی تو گلا کیسے ہو

سفر شوق ہے بجھتے ہوئے صحراؤں میں

آگ مرہم ہے مرے پاؤں کے چھالوں کے لیے

وہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی

یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے

آگے نکل گئے وہ مجھے دیکھتے ہوئے

جیسے میں آدمی نہ ہوا نقش پا ہوا

کس لیے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا

قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھا

تلاش کرنی تھی اک روز اپنی ذات مجھے

یہ بھوت بھی مرے سر پر سوار ہونا تھا

تیرے سینے میں بھی اک داغ ہے تنہائی کا

جانتا میں تو کبھی دور نہ ہوتا تجھ سے

کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں

تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے

خلق بے پروا خدا بندوں سے تنگ آیا ہوا

میں اکیلا پھر رہا ہوں حشر کے میدان میں

دیوار کس طرف سے بڑھے کچھ خبر نہیں

ہے بے شمار شہروں میں جنگل گھرا ہوا

ساری مخلوق تماشے کے لیے آئی تھی

کون تھا سیکھنے والا ہنر پروانہ

بے ہنر ہاتھ چمکنے لگا سورج کی طرح

آج ہم کس سے ملے آج کسے چھو آئے

چھپ چھپ کے کہاں تک ترے دیدار ملیں گے

اے پردہ نشیں اب سر بازار ملیں گے

شہر کو چھوڑ کے ویرانوں میں آباد تو ہو

تجھے تنہائی کی آواز سنائی دے گی

تنہائی میں آ جاتی ہیں حوریں مرے گھر میں

چمکاتے ہیں مسجد کے در و بام فرشتے

کبھی کبھی چھلک اٹھتا ہے آب و رنگ ان کا

وگرنہ دشت تو سوکھے ہوئے سمندر ہیں

بہت شرمندہ ہوں ابلیس سے میں

خطا میری سزا اس کو ملی ہے

آنکھیں نہ کھلیں نور کے سیلاب میں میری

ہو روشنی اتنی کہ اندھیرا نظر آئے

بس یہی ہوگا کہ دیوانہ کہیں گے اہل بزم

آپ چپ کیوں ہیں مری طرز نوا لے لیجیے

تمہاری بزم سے بھی اٹھ چلے ہیں دیوانے

جسے وہ ڈھونڈ رہے تھے وہ شے یہاں بھی نہیں

آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے

پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے

منزل پہ جا کے خاک اڑانے سے فائدہ

جن کی تلاش تھی مجھے رستے میں مل گئے

چاہتا ہوں کہ ہو پرواز ستاروں سے بلند

اور مرے حصے میں ٹوٹے ہوئے بازو آئے

ڈوب جاتا ہے دمکتا ہوا سورج لیکن

مہندیاں شام کے ہاتھوں میں رچا دیتا ہے

یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے

تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے

خامشی ہی میں سہی پر کبھی اظہار تو کر

اس قدر ضبط سے سینہ ترا پھٹ جائے گا

ٹکراتا ہے سر پھوڑتا ہے سارا زمانہ

دیوار کو رستے سے ہٹاتا نہیں پھر بھی

روشن بھی کرو گے کبھی تاریکئ شب کو

یا شمع کی مانند پگھلتے ہی رہوگے

کچھ تیرے سبب تھی مرے پہلو میں حرارت

کچھ دل نے بھی اس آگ کو بھڑکایا ہوا تھا

ہمارے پیش نظر منزلیں کچھ اور بھی تھیں

یہ حادثہ ہے کہ ہم تیرے پاس آ پہنچے

چاہے اب آپ بھی مجھے آسیب ہی کہیں

خود منتخب کیا ہے یہ اجڑا ہوا مکاں

چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی

بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی

کم نہیں ہے یہ اذیت کہ ابھی زندہ ہوں

اب مرے سر پہ کوئی اور بلا کیوں آئے

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو

منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

جس کے باعث ابھی ٹھنڈک ہے مرے سینے میں

بھڑک اٹھتا ہوں اگر نام لیا جاتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے