Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anjum Khaleeq's Photo'

انجم خلیق

1950

پاکستان کے شاعر اور صحافی

پاکستان کے شاعر اور صحافی

انجم خلیق کے اشعار

2.6K
Favorite

باعتبار

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

ہم جیسا مگر ذوق قوافی نہیں رکھتے

میں اب تو شہر میں اس بات سے پہچانا جاتا ہوں

تمہارا ذکر کرنا اور کرتے ہی چلے جانا

کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے

تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا

سو میری پیاس کا دونوں طرف علاج نہیں

ادھر ہے ایک سمندر ادھر ہے ایک سراب

بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا

مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا

بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں

کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں

خمار قربت منزل تھا نارسی کا جواز

گلی میں آ کے میں اس کا مکان بھول گیا

انسان کی نیت کا بھروسہ نہیں کوئی

ملتے ہو تو اس بات کو امکان میں رکھنا

کیسا فراق کیسی جدائی کہاں کا ہجر

وہ جائے گا اگر تو خیالوں میں آئے گا

وحشت ہجر بھی تنہائی بھی میں بھی انجمؔ

جب اکٹھے ہوئے سب ایک غزل اور کہی

زرفشاں ہے مری زرخیز زمینوں کا بدن

ذرہ ذرہ مرے پنجاب کا پارس نکلا

ستم تو یہ ہے کہ فوج ستم میں بھی انجمؔ

بس اپنے لوگ ہی دیکھوں جدھر نگاہ کروں

اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے

سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی

کہو کیا بات کرتی ہے کبھی صحرا کی خاموشی

کہا اس خامشی میں بھی تو اک تقریر ہوتی ہے

تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی

کہ تن ڈھکنے پہ بھی جسموں کی عریانی نہیں جاتی

فراق رت میں بھی کچھ لذتیں وصال کی ہیں

خیال ہی میں ترے خال و خد ابھارا کریں

ان سنگ زنوں میں کوئی اپنا بھی تھا شاید

جو ڈھیر سے یہ قیمتی پتھر نکل آئے

کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے

کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے

بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں

یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا

سروں سے تاج بڑے جسم سے عبائیں بڑی

زمانے ہم نے ترا انتخاب دیکھ لیا

ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ

جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے

اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے

میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں

مری ہوس کے مقابل یہ شہر چھوٹے ہیں

خلا میں جا کے نئی بستیاں تلاش کروں

زباں بندی کے موسم میں گلی کوچوں کی مت پوچھو

پرندوں کے چہکنے سے شجر آباد ہوتے ہیں

خود کو اذیتیں نہ دے مجھ کو اذیتیں نہ دے

خود پہ بھی اختیار رکھ مجھ پہ بھی اعتبار کر

مری تعمیر بہتر شکل میں ہونے کو ہے انجمؔ

کہ جنگل صاف ہونے سے نگر آباد ہوتے ہیں

یہ کون ہے کہ جس کو ابھارے ہوئے ہے موج

وہ شخص کون تھا جو تہہ آب رہ گیا

اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

تو یاس کے موسم میں بھی امید کا فن سیکھ

جن کو کہا نہ جا سکا جن کو سنا نہیں گیا

وہ بھی ہیں کچھ حکایتیں ان کو بھی تو شمار کر

ہم ایسے لوگ بہت خوش گمان ہوتے ہیں

یہ دل ضرور ترا اعتبار کر لے گا

ذرا سی میں نے ترجیحات کی ترتیب بدلی تھی

کہ آپس میں الجھ کر رہ گئے دنیا و دیں میرے

مرے جنوں کو ہوس میں شمار کر لے گا

وہ میرے تیر سے مجھ کو شکار کر لے گا

زمیں کی گود میں اتنا سکون تھا انجمؔ

کہ جو گیا وہ سفر کی تھکان بھول گیا

اسی شرر کو جو اک عہد یاس نے بخشا

کبھی دیا کبھی جگنو کبھی ستارہ کریں

یہ کون نکل آیا یہاں سیر چمن کو

شاخوں سے مہکتے ہوئے زیور نکل آئے

مری خاطر سے یہ اک زخم جو مٹی نے کھایا ہے

ذرا کچھ اور ٹھہرو اس کے بھرتے ہی چلے جانا

نخل انا میں زور نمو کس غضب کا تھا

یہ پیڑ تو خزاں میں بھی شاداب رہ گیا

اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا

پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی

خاطر سے جو کرنا پڑی کج فہم کی تائید

لگتا تھا کہ انکار کشی ایک ہنر ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے