Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azad Gulati's Photo'

آزاد گلاٹی

1935 | پنجاب, پاکستان

جدید غزل کے ممتاز شاعر، انگریزی کے پروفیسر رہے

جدید غزل کے ممتاز شاعر، انگریزی کے پروفیسر رہے

آزاد گلاٹی کے اشعار

4.1K
Favorite

باعتبار

ایک وہ ہیں کہ جنہیں اپنی خوشی لے ڈوبی

ایک ہم ہیں کہ جنہیں غم نے ابھرنے نہ دیا

وہ وقت آئے گا جب خود تمہی یہ سوچو گی

ملا نہ ہوتا اگر تجھ سے میں تو بہتر تھا

روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا

کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا

کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے

جو کھل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے

آپ جس رہگزر دل سے کبھی گزرے تھے

اس پہ تا عمر کسی کو بھی گزرنے نہ دیا

آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں

ڈھونڈھتا پھرتا ہے خود اپنا ہی سایا سورج

یادوں کی محفل میں کھو کر

دل اپنا تنہا تنہا ہے

سال نو آتا ہے تو محفوظ کر لیتا ہوں میں

کچھ پرانے سے کلینڈر ذہن کی دیوار پر

اپنی ساری کاوشوں کو رائیگاں میں نے کیا

میرے اندر جو نہ تھا اس کو بیاں میں نے کیا

ہر اک نے دیکھا مجھے اپنی اپنی نظروں سے

کوئی تو میری نظر سے بھی دیکھتا مجھ کو

اسے بھی جاتے ہوئے تم نے مجھ سے چھین لیا

تمہارا غم تو مری آرزو کا زیور تھا

زندگی اے زندگی!! آ دو گھڑی مل کر رہیں

تجھ سے میرا عمر بھر کا تو کوئی جھگڑا نہ تھا

آج آئینے میں خود کو دیکھ کر یاد آ گیا

ایک مدت ہو گئی جس شخص کو دیکھے ہوئے

تمہیں بھی مجھ میں نہ شاید وہ پہلی بات ملے

خود اپنے واسطے اب کوئی دوسرا ہوں میں

شاید تم بھی اب نہ مجھے پہچان سکو

اب میں خود کو اپنے جیسا لگتا ہوں

کس سے پوچھیں رات بھر اپنے بھٹکنے کا سبب

سب یہاں ملتے ہیں جیسے نیند میں جاگے ہوئے

وقت کا یہ موڑ کیسا ہے کہ تجھ سے مل کے بھی

تجھ کو کھو دینے کا غم کچھ اور گہرا ہو گیا

یہ میں تھا یا مرے اندر کا خوف تھا جس نے

تمام عمر دی تنہائی کی سزا مجھ کو

سمیٹ لو مجھے اپنی صدا کے حلقوں میں

میں خامشی کی ہوا سے بکھرنے والا ہوں

دیکھنے والے مجھے میری نظر سے دیکھ لے

میں تری نظروں میں ہوں اور میں ہی ہر منظر میں ہوں

میں ساتھ لے کے چلوں گا تمہیں اے ہم سفرو

میں تم سے آگے ہوں لیکن ٹھہرنے والا ہوں

سمیٹ لاتا ہوں موتی تمہاری یادوں کے

جو خلوتوں کے سمندر میں ڈوبتا ہوں میں

پھینکا تھا ہم پہ جو کبھی اس کو اٹھا کے دیکھ

جو کچھ لہو میں تھا اسی پتھر پہ نقش ہے

دشت ظلمات میں ہمراہ مرے

کوئی تو ہے جو جلا ہے مجھ میں

کسے ملتی نجات آزادؔ ہستی کے مسائل سے

کہ ہر کوئی مقید آب و گل کے سلسلوں کا تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے