Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hasan Naim's Photo'

حسن نعیم

1927 - 1991 | پٹنہ, انڈیا

کلاسیکی شعور اور عصری حسیت کے امتزاج کو تخلیقی اظہار دینے والے معروف شاعر

کلاسیکی شعور اور عصری حسیت کے امتزاج کو تخلیقی اظہار دینے والے معروف شاعر

حسن نعیم کے اشعار

7.4K
Favorite

باعتبار

کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے

ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا

میں تو غم سے ہی بے مثال ہوا

جو بھی کہنا ہے کہو صاف شکایت ہی سہی

ان اشارات و کنایات سے جی ڈرتا ہے

گرد شہرت کو بھی دامن سے لپٹنے نہ دیا

کوئی احسان زمانے کا اٹھایا ہی نہیں

سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات

نہیں ہے شرط کہ مجھ کو شریک خواب بنا

اے صبا میں بھی تھا آشفتہ سروں میں یکتا

پوچھنا دلی کی گلیوں سے مرا نام کبھی

اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر

مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے

خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے

وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے

اقبالؔ کی نوا سے مشرف ہے گو نعیمؔ

اردو کے سر پہ میرؔ کی غزلوں کا تاج ہے

سچ تو یہ کہ ابھی دل کو سکوں ہے لیکن

اپنے آوارہ خیالات سے جی ڈرتا ہے

میں اپنی روح میں اس کو بسا چکا اتنا

اب اس کا حسن بھی پردہ دکھائی دیتا ہے

ایک دریا پار کر کے آ گیا ہوں اس کے پاس

ایک صحرا کے سوا اب درمیاں کوئی نہیں

جرأت کہاں کہ اپنا پتہ تک بتا سکوں

جیتا ہوں اپنے ملک میں اوروں کے نام سے

جہاں دکھائی نہ دیتا تھا ایک ٹیلہ بھی

وہاں سے لوگ اٹھا کر پہاڑ لائے ہیں

میں ایک باب تھا افسانۂ وفا کا مگر

تمہاری بزم سے اٹھا تو اک کتاب بنا

کوئی موسم ہو یہی سوچ کے جی لیتے ہیں

اک نہ اک روز شجر غم کا ہرا تو ہوگا

کون مجھ سے پوچھتا ہے روز اتنے پیار سے

کام کتنا ہو چکا ہے وقت کتنا رہ گیا

کسی نے ڈوبتی صبحوں تڑپتی شاموں کو

غزل کے جام میں شب کا خمار بھیجا ہے

پاؤں سے لگ کے کھڑی ہے یہ غریب الوطنی

اس کو سمجھاؤ کہ ہم اپنے وطن آئے ہیں

موجۂ اشک سے بھیگی نہ کبھی نوک قلم

وہ انا تھی کہ کبھی درد نہ جی کا لکھا

روح کا لمبا سفر ہے ایک بھی انساں کا قرب

میں چلا برسوں تو ان تک جسم کا سایہ گیا

پیمبروں نے کہا تھا کہ جھوٹ ہارے گا

مگر یہ دیکھیے اپنا مشاہدہ کیا ہے

کم نہیں اے دل بے تاب متاع امید

دست مے خوار میں خالی ہی سہی جام تو ہے

آ بسے کتنے نئے لوگ مکان جاں میں

بام و در پر ہے مگر نام اسی کا لکھا

پے بہ پے تلوار چلتی ہے یہاں آفات کی

دست و بازو کی خبر لوں تو سمجھئے سر گیا

کیا فراق و فیض سے لینا تھا مجھ کو اے نعیمؔ

میرے آگے فکر و فن کے کچھ نئے آداب تھے

خلوت امید میں روشن ہے اب تک وہ چراغ

جس سے اٹھتا ہے قریب شام یادوں کا دھواں

جو میرے دشت جنوں میں تھا فرق روئے بہار

وہی خرد کے خرابے میں اک گلاب بنا

اتنا دل نعیمؔ کو ویراں نہ کر حجاز

روئے گی موج گنگ جو اس تک خبر گئی

Recitation

بولیے