Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saleem Siddiqui's Photo'

سلیم صدیقی

1975 | بارہ بنکی, انڈیا

نئے لب و لہجے کے تازۃ کار شاعر

نئے لب و لہجے کے تازۃ کار شاعر

سلیم صدیقی کے اشعار

3.1K
Favorite

باعتبار

آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر

آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے

کون سا جرم خدا جانے ہوا ہے ثابت

مشورے کرتا ہے منصف جو گنہ گار کے ساتھ

ہم آدمی کی طرح جی رہے ہیں صدیوں سے

چلو سلیمؔ اب انسان ہو کے دیکھتے ہیں

اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں

دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں

عمر بھر جس کے لئے پیٹ سے باندھے پتھر

اب وہ گن گن کے کھلاتا ہے نوالے مجھ کو

بیڑیاں ڈال کے پرچھائیں کی پیروں میں مرے

قید رکھتے ہیں اندھیروں میں اجالے مجھ کو

اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے

مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے

خریدنے کے لئے اس کو بک گیا خود ہی

میں وہ ہوں جس کو منافعے میں بھی خسارا ہوا

اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو

سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے

کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا

سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ

ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی

میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی

خوف آنکھوں میں مری دیکھ کے چنگاری کا

کر دیا رات نے سورج کے حوالے مجھ کو

زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع

اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج

آج پھر اپنی سماعت سونپ دی اس نے ہمیں

آج پھر لہجہ ہمارا اختیار اس نے کیا

اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا

میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں

سارے کردار کچلنے پہ تلے ہیں ہم کو

آؤ چپ چاپ کہانی سے نکل چلتے ہیں

ہم کو اڑنے کے طریقے نہ سکھاؤ ہم لوگ

پیڑ سے آئے ہیں پنجرے سے نہیں آئے ہیں

کون سوکھے ہوئے پھولوں کی طرف دیکھتا ہے

زخم تھوڑے سے ہرے ہوں تو نمائش کریں ہم

ہم ریاضی کے ہیں ماہر کہ ہمارے گھر میں

ایک تنخواہ پہ دس لوگ گزر کرتے ہیں

جبیں کو چوم کے بس اتنی روشنی رکھ دے

ہوا چراغ بجھائے تو مجھ کو ڈر نہ لگے

میں سدا دے کے اسے روک نہ پایا افسوس

کاش آواز کو زنجیر کیا جا سکتا

مٹی کی فضیلت پہ بہت شعر کہے ہیں

سونے سے لکھا جائے گا دیوان ہمارا

جگنو بھی گھر سے نکلیں ستارے بھی آئیں ساتھ

مٹی کے اک دیے پہ مصیبت کا وقت ہے

سنا تھا روح طلب ہے ترے بدن کی مہک

سو تیرے شہر سے گزرے تو سانس لی ہی نہیں

آنکھیں تڑپ رہی ہیں مری کچھ خیال کر

بند قبا کو کھول بدن کو بحال کر

ہم کو بیساکھیاں سنبھالے ہیں

پاؤں ہوتے تو لڑکھڑاتے ہم

عجیب لوگ ہیں لاشوں میں زندگی کے نشاں

ہر ایک جسم میں نیزہ چبھو کے دیکھتے ہیں

تشنہ کامی اگر پیمبر ہو

کون کلمہ پڑھے گا پانی کا

پھر شاہ نے بیعت ہی طلب کی نہیں ورنہ

جو رن میں ہوا تھا وہی دربار میں ہوتا

یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے

جیسے پلکوں کے جھپکنے سے نظر ٹوٹتی ہے

گلوں کے جسم پہ شبنم عجیب رسم ہے یہ

کسی کا درد کسی کے جگر میں رکھا جائے

جنون قافلہ سازی ترا قبول مگر

یہ راہ تنگ نہ ہو جائے شہسواروں پر

میں نے روغن کی تجارت تو نہیں کی لیکن

شہر کے سارے چراغوں کے نسب جانتا ہوں

Recitation

بولیے