سلیم صدیقی کے اشعار
آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر
آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کون سا جرم خدا جانے ہوا ہے ثابت
مشورے کرتا ہے منصف جو گنہ گار کے ساتھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم آدمی کی طرح جی رہے ہیں صدیوں سے
چلو سلیمؔ اب انسان ہو کے دیکھتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں
دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں
عمر بھر جس کے لئے پیٹ سے باندھے پتھر
اب وہ گن گن کے کھلاتا ہے نوالے مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بیڑیاں ڈال کے پرچھائیں کی پیروں میں مرے
قید رکھتے ہیں اندھیروں میں اجالے مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے
مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے
-
موضوع : مفلسی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خریدنے کے لئے اس کو بک گیا خود ہی
میں وہ ہوں جس کو منافعے میں بھی خسارا ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا
سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی
میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوف آنکھوں میں مری دیکھ کے چنگاری کا
کر دیا رات نے سورج کے حوالے مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع
اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج پھر اپنی سماعت سونپ دی اس نے ہمیں
آج پھر لہجہ ہمارا اختیار اس نے کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا
میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سارے کردار کچلنے پہ تلے ہیں ہم کو
آؤ چپ چاپ کہانی سے نکل چلتے ہیں
ہم کو اڑنے کے طریقے نہ سکھاؤ ہم لوگ
پیڑ سے آئے ہیں پنجرے سے نہیں آئے ہیں
کون سوکھے ہوئے پھولوں کی طرف دیکھتا ہے
زخم تھوڑے سے ہرے ہوں تو نمائش کریں ہم
ہم ریاضی کے ہیں ماہر کہ ہمارے گھر میں
ایک تنخواہ پہ دس لوگ گزر کرتے ہیں
جبیں کو چوم کے بس اتنی روشنی رکھ دے
ہوا چراغ بجھائے تو مجھ کو ڈر نہ لگے
میں سدا دے کے اسے روک نہ پایا افسوس
کاش آواز کو زنجیر کیا جا سکتا
مٹی کی فضیلت پہ بہت شعر کہے ہیں
سونے سے لکھا جائے گا دیوان ہمارا
جگنو بھی گھر سے نکلیں ستارے بھی آئیں ساتھ
مٹی کے اک دیے پہ مصیبت کا وقت ہے
سنا تھا روح طلب ہے ترے بدن کی مہک
سو تیرے شہر سے گزرے تو سانس لی ہی نہیں
آنکھیں تڑپ رہی ہیں مری کچھ خیال کر
بند قبا کو کھول بدن کو بحال کر
عجیب لوگ ہیں لاشوں میں زندگی کے نشاں
ہر ایک جسم میں نیزہ چبھو کے دیکھتے ہیں
پھر شاہ نے بیعت ہی طلب کی نہیں ورنہ
جو رن میں ہوا تھا وہی دربار میں ہوتا
یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے
جیسے پلکوں کے جھپکنے سے نظر ٹوٹتی ہے
گلوں کے جسم پہ شبنم عجیب رسم ہے یہ
کسی کا درد کسی کے جگر میں رکھا جائے
جنون قافلہ سازی ترا قبول مگر
یہ راہ تنگ نہ ہو جائے شہسواروں پر
میں نے روغن کی تجارت تو نہیں کی لیکن
شہر کے سارے چراغوں کے نسب جانتا ہوں