Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khushbir Singh Shaad's Photo'

خوشبیر سنگھ شادؔ

1954 | جالندھر, انڈیا

اہم ترین معاصر شاعروں میں شامل، عوامی مقبولیت بھی حاصل

اہم ترین معاصر شاعروں میں شامل، عوامی مقبولیت بھی حاصل

خوشبیر سنگھ شادؔ کے اشعار

4.6K
Favorite

باعتبار

بہت دنوں سے مرے بام و در کا حصہ ہے

مری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے

کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں

پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے صحرا دیکھ کر

رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے

بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے

نہ جانے کتنی اذیت سے خود گزرتا ہے

یہ زخم تب کہیں جا کر نشاں بناتا ہے

تھے جس کا مرکزی کردار ایک عمر تلک

پتہ چلا کہ اسی داستاں کے تھے ہی نہیں

کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے

نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے

خوشیاں دیتے دیتے اکثر خود غم میں مر جاتے ہیں

ریشم بننے والے کیڑے ریشم میں مر جاتے ہیں

مجھ کو سمجھ نہ پائی مری زندگی کبھی

آسانیاں مجھی سے تھیں مشکل بھی میں ہی تھا

اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے

میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے

میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں

نہ جانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھر آئنہ ہوں میں

اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں

کیا کہیں خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں

کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا

روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی

نئے منظر کے خوابوں سے بھی ڈر لگتا ہے ان کو

پرانے منظروں سے جن کی آنکھیں کٹ چکی ہیں

شادؔ اتنی بڑھ گئی ہیں میرے دل کی وحشتیں

اب جنوں میں دشت اور گھر ایک جیسے ہو گئے

اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے

اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے

یہ تیرا تاج نہیں ہے ہماری پگڑی ہے

یہ سر کے ساتھ ہی اترے گی سر کا حصہ ہے

کبھی عروج پہ تھا خود پہ اعتماد مرا

غروب کیسے ہوا ہے یہ آفتاب نہ پوچھ

یہ سچ ہے چند لمحوں کے لئے بسمل تڑپتا ہے

پھر اس کے بعد ساری زندگی قاتل تڑپتا ہے

ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مرے احساس کو

کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر

مرے اندر کئی احساس پتھر ہو رہے ہیں

یہ شیرازہ بکھرنا اب ضروری ہو گیا ہے

یہ ممکن ہے تمہارا عکس ہی برہم ہو چہرے سے

اسے تم آئنے کی سرگرانی کیوں سمجھتے ہو

بھنور جب بھی کسی مجبور کشتی کو ڈبوتا ہے

تو اپنی بے بسی پر دور سے ساحل تڑپتا ہے

روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں

آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں

ہم اپنے گھر میں بھی اب بے سر و ساماں سے رہتے ہیں

ہمارے سلسلے خانہ خرابوں سے نکل آئے

ایک ہم ہیں کہ پرستش پہ عقیدہ ہی نہیں

اور کچھ لوگ یہاں بن کے خدا بیٹھے ہیں

چلو اچھا ہوا آخر تمہاری نیند بھی ٹوٹی

چلو اچھا ہوا اب تم بھی خوابوں سے نکل آئے

میں بارہا تری یادوں میں اس طرح کھویا

کہ جیسے کوئی ندی جنگلوں میں گم ہو جائے

میں کب سے نیند کا مارا ہوا ہوں اور کب سے

یہ میری جاگتی آنکھیں ہیں محو خواب نہ پوچھ

یہی قطرے بناتے ہیں کبھی تو گھاس پر موتی

کبھی شبنم کو یہ سیماب میں تبدیل کرتے ہیں

رفتہ رفتہ سب تصویریں دھندلی ہونے لگتی ہیں

کتنے چہرے ایک پرانے البم میں مر جاتے ہیں

کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ

تو مجھ سے عہد گذشتہ کا اب حساب نہ پوچھ

نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے

سفر دیوانگی کا عشق کی منزل سے آگے ہے

میں نے تو تصور میں اور عکس دیکھا تھا

فکر مختلف کیوں ہے شاعری کے پیکر میں

مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے

تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں

ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے

یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں

رات میری آنکھوں میں کچھ عجیب چہرے تھے

اور کچھ صدائیں تھیں خامشی کے پیکر میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے