بھروسہ پر اشعار
بھروسے کے ٹوٹنے اور
بکھرنے کا دکھ اور اس کی پائیداری سے حاصل ہونے والا اعتماد دونوں ہی تجربے بہت اہم انسانی تجربے ہیں ۔ انسان اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ سماجی زندگی میں رشتوں کے ایک جال میں پھنسا ہوتا ہے ، جہاں وہ کسی پر بھروسہ کرتا بھی ہے اور اس پر بھروسہ کیا بھی جاتا ہے ۔ شاعروں نے زندگی کی بہت چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنایا ہے ، بھروسے اور اس کی مختلف شکلوں کو مشتمل یہ شاعری ہمیں زندگی کا ایک نیا شعور عطا کرتی ہے ۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تشریح
معشوق کو اس کے منہ پر جھوٹا کہہ دینا غالب کا ہی کام تھا۔ اردو غزل کے عاشق کی تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ معشوق اس سے کوئی وعدہ کرے۔ یہ وعدہ وصل کا بھی ہو سکتا ہے، ظلم و ستم سے توبہ کا بھی یا کسی نوازش کا بھی۔ وہ ان میں وعدوں سے بہل جاتا ہے اور اگر ایک وعدہ پورا نہیں ہوتا تو کسی دوسرے وعدے کے پورا ہونے کی امید پر جیتا رہتا ہے۔ لیکن غالبؔ نے صاف کہہ دیا کہ محترمہ آپ مجھ سے جو وعدے کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ میں دوسرے احمق عاشقوں کی طرح ان پر یقین کر کے ان کے پورا ہونے کی امید میں جی رہا ہوں تو اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے کسی وعدے پر کبھی یقین ہی نہیں کیا۔ معشوق کو اتنا بڑا اعصابی جھٹکا دینے کے بعد وہ اسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی محبت دوسرے عاشقوں سے کتنی مختلف اور کتنی شدید ہے۔ وہ اس کو بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس کے کسی وعدے پر یقین ہو جاتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور شاید وہ اتنی بڑی خوشی برداشت ہی نہ کر پاتے اور مرجاتے۔ محبت کی شدت کا یہ اظہار بھی نرالا ہے جس میں غزل کے معشوق کی روایتی وعدہ خلافیوں کا شکوہ پس پشت چلا جاتا ہے اور عاشق کی انفرادیت اور اس کے شدت عشق کا پہلو ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غالبؔ روایتی غزل کے مضامین کو گِھسے پٹے انداز میں اپنے اشعار میں دہرانے کو اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ وہ جب بھی کسی ایسے مضمون کو ہاتھ لگاتے تھے تو اس میں کوئی ایسا نیا پن ڈال دیتے تھے کہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اس سے پہلے اس طرح کی بات کبھی نہیں سنی۔
’’خوشی سے مر نہ جاتے‘‘
میں معنی کا اک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر ہم کو وعدہ پر اعتبار ہوتا تو ہم خوشی خوشی، اپنی رضامندی سے مر جانا پسند کرتے۔ یہ معنی اس وقت کارگر ہوں گے جب فرض کر لیا جائے کہ معشوق نے مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملنے کا وعدہ کیا ہے۔
محمد اعظم
-
موضوع : وعدہ
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
-
موضوعات : امیداور 2 مزید
مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
-
موضوع : انتظار
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
-
موضوع : انسان
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
-
موضوع : وعدہ
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے
-
موضوع : فریب
مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ
کسی نے توڑ دیا اعتبار ٹوٹ گیا
میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں
ہزار بار جسے آزما لیا میں نے
جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا
یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا
ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ
-
موضوع : قاتل
بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں
-
موضوع : زندگی
ہم آج راہ تمنا میں جی کو ہار آئے
نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا
-
موضوعات : تمنااور 3 مزید
وہ کہتے ہیں میں زندگانی ہوں تیری
یہ سچ ہے تو ان کا بھروسا نہیں ہے
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح
درد دل کیا بیاں کروں رشکیؔ
اس کو کب اعتبار آتا ہے
یہ اور بات کہ اقرار کر سکیں نہ کبھی
مری وفا کا مگر ان کو اعتبار تو ہے
-
موضوع : وفا
جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسا ہے
جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا
-
موضوع : زندگی
مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن
تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے
اس کی خواہش پہ تم کو بھروسا بھی ہے اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے
لطف آیا تمہیں گمرہی نے کہا گمرہی کے لئے ایک تازہ غزل