Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Gulzar's Photo'

ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ

ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ

گلزار کے اشعار

97.9K
Favorite

باعتبار

جب دوستی ہوتی ہے تو دوستی ہوتی ہے

اور دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح

ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے

قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے

کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف

کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں

عمر گزری ہے اس قدر تنہا

دیر سے گونجتے ہیں سناٹے

جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی

آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی

ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی

دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی

جیسے احساں اتارتا ہے کوئی

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے

دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں

سہما سہما ڈرا سا رہتا ہے

جانے کیوں جی بھرا سا رہتا ہے

چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں

دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں

میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو

مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے

ایک ہی خواب نے ساری رات جگایا ہے

میں نے ہر کروٹ سونے کی کوشش کی

کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں

ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی

زندگی پر بھی کوئی زور نہیں

دل نے ہر چیز پرائی دی ہے

پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا

یار نے کیسی رہائی دی ہے

جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں

اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے

آگ میں کیا کیا جلا ہے شب بھر

کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر

عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

آج پھر آپ کی کمی سی ہے

یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا

وگرنہ زندگی بھر کو رلا دیا ہوتا

کوئی خاموش زخم لگتی ہے

زندگی ایک نظم لگتی ہے

آپ نے اوروں سے کہا سب کچھ

ہم سے بھی کچھ کبھی کہیں کہتے

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں

سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا

کوئی احساس تو دریا کی انا کا ہوتا

کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں

کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں

رک کر اپنا ہی انتظار کیا

یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں

یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں

بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں

اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں

اپنے ماضی کی جستجو میں بہار

پیلے پتے تلاش کرتی ہے

آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آگ کا پتہ

یوں چہرہ پھیر لینے سے چھپتا نہیں دھواں

چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی

کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں

آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں

مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں

راکھ کو بھی کرید کر دیکھو

ابھی جلتا ہو کوئی پل شاید

کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا

آج کی داستاں ہماری ہے

وہ ایک دن ایک اجنبی کو

مری کہانی سنا رہا تھا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری

میں سال اپنے بڑھا رہا تھا

اسی کا ایماں بدل گیا ہے

کبھی جو میرا خدا رہا تھا

ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے

دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا

جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے

جانے کون آس پاس ہوتا ہے

گو برستی نہیں سدا آنکھیں

ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے

زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے

درد دل کا لباس ہوتا ہے

خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی

ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی

یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں

سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے