Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ali Jawad Zaidi's Photo'

علی جواد زیدی

1916 - 2004 | لکھنؤ, انڈیا

معروف شاعر اور نقاد، اپنی تنقیدی کتاب ’دو ادبی اسکول‘ کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

معروف شاعر اور نقاد، اپنی تنقیدی کتاب ’دو ادبی اسکول‘ کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

علی جواد زیدی کے اشعار

2K
Favorite

باعتبار

جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا

وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے

یہ دشمنی ہے ساقی یا دوستی ہے ساقی

اوروں کو جام دینا مجھ کو دکھا دکھا کے

گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال

جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا

لذت درد ملی عشرت احساس ملی

کون کہتا ہے ہم اس بزم سے ناکام آئے

عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے

زندگی اک حسین سنگم ہے

اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے

آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے

دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا

ہم راہ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں

شوق منزل ہم سفر ہے جذبۂ دل راہبر

مجھ پہ خود بھی کھل نہیں پاتا کدھر جاتا ہوں میں

دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے

جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں

ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا

ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں

ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے

جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں

مرے ہاتھ سلجھا ہی لیں گے کسی دن

ابھی زلف ہستی میں خم ہے تو کیا غم

دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں

یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم

ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیے جلائے ہیں

آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی

نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی

پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی

مونس شب رفیق تنہائی

درد دل بھی کسی سے کم تو نہیں

ہیں وجود شے میں پنہاں ازل و ابد کے رشتے

یہاں کچھ نہیں دو روزہ کوئی شے نہیں ہے فانی

جب کبھی دیکھا ہے اے زیدیؔ نگاہ غور سے

ہر حقیقت میں ملے ہیں چند افسانے مجھے

آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا

آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے

غضب ہوا کہ ان آنکھوں میں اشک بھر آئے

نگاہ یاس سے کچھ اور کام لینا تھا

جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں

وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر بچا کے

غیر پوچھیں بھی تو ہم کیا اپنا افسانہ کہیں

اب تو ہم وہ ہیں جسے اپنے بھی بیگانہ کہیں

پی تو لوں آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو لیکن

دل پہ قابو بھی تو ہو ضبط کا یارا بھی تو ہو

اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں

ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ

ہار کے بھی نہیں مٹی دل سے خلش حیات کی

کتنے نظام مٹ گئے جشن ظفر کے بعد بھی

مدتوں سے خلش جو تھی جیسے وہ کم سی ہو چلی

آج مرے سوال کا مل ہی گیا جواب کیا

دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے

پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے

Recitation

بولیے