Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Gulzar's Photo'

ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ

ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ

گلزار کے اشعار

104.3K
Favorite

باعتبار

آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے

آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے

آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی

ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

آج پھر آپ کی کمی سی ہے

کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف

کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر

عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں

ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں

اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے

کوئی خاموش زخم لگتی ہے

زندگی ایک نظم لگتی ہے

ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں

رک کر اپنا ہی انتظار کیا

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں

عمر گزری ہے اس قدر تنہا

کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا

آج کی داستاں ہماری ہے

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں

سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو

مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے

جانے کون آس پاس ہوتا ہے

ایک ہی خواب نے ساری رات جگایا ہے

میں نے ہر کروٹ سونے کی کوشش کی

پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا

یار نے کیسی رہائی دی ہے

سہما سہما ڈرا سا رہتا ہے

جانے کیوں جی بھرا سا رہتا ہے

اپنے ماضی کی جستجو میں بہار

پیلے پتے تلاش کرتی ہے

دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی

جیسے احساں اتارتا ہے کوئی

زندگی پر بھی کوئی زور نہیں

دل نے ہر چیز پرائی دی ہے

اسی کا ایماں بدل گیا ہے

کبھی جو میرا خدا رہا تھا

آپ نے اوروں سے کہا سب کچھ

ہم سے بھی کچھ کبھی کہیں کہتے

زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے

درد دل کا لباس ہوتا ہے

چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں

دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں

دیر سے گونجتے ہیں سناٹے

جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے

قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے

راکھ کو بھی کرید کر دیکھو

ابھی جلتا ہو کوئی پل شاید

وہ ایک دن ایک اجنبی کو

مری کہانی سنا رہا تھا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری

میں سال اپنے بڑھا رہا تھا

آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آگ کا پتہ

یوں چہرہ پھیر لینے سے چھپتا نہیں دھواں

یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا

وگرنہ زندگی بھر کو رلا دیا ہوتا

یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں

سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی

ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی

گو برستی نہیں سدا آنکھیں

ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے

ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے

دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا

بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں

اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں

آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں

مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں

رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے

دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں

یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں

یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں

یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا

کوئی احساس تو دریا کی انا کا ہوتا

یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح

ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی

چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی

کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں

کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں

کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا

آگ میں کیا کیا جلا ہے شب بھر

کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے

جب دوستی ہوتی ہے تو دوستی ہوتی ہے

اور دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے