Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saleem Kausar's Photo'

سلیم کوثر

1947 | کراچی, پاکستان

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

سلیم کوثر کے اشعار

19.4K
Favorite

باعتبار

وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں

اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں

کیسے ہنگامۂ فرصت میں ملے ہیں تجھ سے

ہم بھرے شہر کی خلوت میں ملے ہیں تجھ سے

سائے گلی میں جاگتے رہتے ہیں رات بھر

تنہائیوں کی اوٹ سے جھانکا نہ کر مجھے

تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے

پھر پس دیوار زنداں رات بھر روتا ہے کون

بہت دنوں میں کہیں ہجر ماہ و سال کے بعد

رکا ہوا ہے زمانہ ترے وصال کے بعد

پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے

جو لوگ ڈوب گئے کشتیاں بناتے ہوئے

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی

تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں ہوگی یعنی

اک دریا میں دوسری بار اترا نہیں جا سکتا

دیکھتے کچھ ہیں دکھاتے ہمیں کچھ ہیں کہ یہاں

کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ

سانس لینے سے بھی بھرتا نہیں سینے کا خلا

جانے کیا شے ہے جو بے دخل ہوئی ہے مجھ میں

کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے

وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے

جدائی بھی نہ ہوتی زندگی بھی سہل ہو جاتی

جو ہم اک دوسرے سے مسئلہ تبدیل کر لیتے

تمام عمر ستارے تلاش کرتا پھرا

پلٹ کے دیکھا تو مہتاب میرے سامنے تھا

بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے

کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا

ہم نے تو خود سے انتقام لیا

تم نے کیا سوچ کر محبت کی

دست دعا کو کاسۂ سائل سمجھتے ہو

تم دوست ہو تو کیوں نہیں مشکل سمجھتے ہو

تو نے دیکھا نہیں اک شخص کے جانے سے سلیمؔ

اس بھرے شہر کی جو شکل ہوئی ہے مجھ میں

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے

کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا

غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا

دنیا اچھی بھی نہیں لگتی ہم ایسوں کو سلیمؔ

اور دنیا سے کنارا بھی نہیں ہو سکتا

میں اسے تجھ سے ملا دیتا مگر دل میرے

میرے کچھ کام نہیں آئے وسائل میرے

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

قدموں میں سائے کی طرح روندے گئے ہیں ہم

ہم سے زیادہ تیرا طلب گار کون ہے

اے مرے چارہ گر ترے بس میں نہیں معاملہ

صورت حال کے لیے واقف حال چاہئے

تم نے سچ بولنے کی جرأت کی

یہ بھی توہین ہے عدالت کی

وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ

یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے

رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے

ہم نے اس بار بھی توہین عدالت نہیں کی

یاد کا زخم بھی ہم تجھ کو نہیں دے سکتے

دیکھ کس عالم غربت میں ملے ہیں تجھ سے

یہ آگ لگنے سے پہلے کی بازگشت ہے جو

بجھانے والوں کو اب تک دھواں بلاتا ہے

محبت اپنے لیے جن کو منتخب کر لے

وہ لوگ مر کے بھی مرتے نہیں محبت میں

اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں

جو یہاں آباد ہیں ان پر بھی گھر کھلتا نہیں

زوروں پہ سلیمؔ اب کے ہے نفرت کا بہاؤ

جو بچ کے نکل آئے گا تیراک وہی ہے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں

میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

مجھے سنبھالنے میں اتنی احتیاط نہ کر

بکھر نہ جاؤں کہیں میں تری حفاظت میں

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں

تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

کچھ اس طرح سے وہ شامل ہوا کہانی میں

کہ اس کے بعد جو کردار تھا فسانہ ہوا

سلیمؔ اب تک کسی کو بد دعا دی تو نہیں لیکن

ہمیشہ خوش رہے جس نے ہمارا دل دکھایا ہے

مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

اہل خرد کو آج بھی اپنے یقین کے لیے

جس کی مثال ہی نہیں اس کی مثال چاہئے

میں جانتا ہوں مکینوں کی خامشی کا سبب

مکاں سے پہلے در و بام سے ملا ہوں میں

یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر

نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے

خاموش سہی مرکزی کردار تو ہم تھے

پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے

میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی

جو نہیں لکھا ابھی اس کی بشارت دوں گا

ایک طرف ترے حسن کی حیرت ایک طرف دنیا

اور دنیا میں دیر تلک ٹھہرا نہیں جا سکتا

کیا عجب کار تحیر ہے سپرد نار عشق

گھر میں جو تھا بچ گیا اور جو نہیں تھا جل گیا

آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر

ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے

قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں

کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں

انتظار اور دستکوں کے درمیاں کٹتی ہے عمر

اتنی آسانی سے تو باب ہنر کھلتا نہیں

اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی

ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے