Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akhtar Shirani's Photo'

اختر شیرانی

1905 - 1948 | لاہور, پاکستان

مقبول ترین اردو شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

مقبول ترین اردو شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

اختر شیرانی کے اشعار

17.2K
Favorite

باعتبار

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ

پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں

بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے

حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو

پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ

توبہ کرنی تھی کہ بدلی چھا گئی

ان کو الفت ہی سہی اغیار سے

ہم سے کیوں اغیار کی باتیں کریں

مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اخترؔ

تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے

سوئے کلکتہ جو ہم بہ دل دیوانہ چلے

گنگناتے ہوئے اک شوخ کا افسانہ چلے

اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں

وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں

جو بھی برا بھلا ہے اللہ جانتا ہے

بندے کے دل میں کیا ہے اللہ جانتا ہے

بھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا

بہت پچھتاؤ گے جس وقت ہم کل یاد آئیں گے

کچھ اس طرح سے یاد آتے رہے ہو

کہ اب بھول جانے کو جی چاہتا ہے

محبت کے اقرار سے شرم کب تک

کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں

اس کے عہد شباب میں جینا

جینے والو تمہیں ہوا کیا ہے

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر

دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

مختصر صحبت ہے ساقی جلد جلد

جام اٹھے مینا بڑھے ساغر چلے

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں

ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ

کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں

یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں

کوچۂ حسن چھٹا تو ہوئے رسوائے شراب

اپنی قسمت میں جو لکھی تھی وہ خواری نہ گئی

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب

لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

غم عزیزوں کا حسینوں کی جدائی دیکھی

دیکھیں دکھلائے ابھی گردش دوراں کیا کیا

لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں

پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی

ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا

کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی

گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا

اس طرح ریل کے ہم راہ رواں ہے بادل

ساتھ جیسے کوئی اڑتا ہوا مے خانہ چلے

مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے لیکن

آج تک دل سے مرے یاد تمہاری نہ گئی

پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا

نیا سال آیا نیا سال آیا

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا

وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

کیا ہے آنے کا وعدہ تو اس نے

مرے پروردگار آئے نہ آئے

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

دل میں لیتا ہے چٹکیاں کوئی

ہائے اس درد کی دوا کیا ہے

اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر

اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا

فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں

تو واعظوں کی نہ سن مے کشوں کی خدمت کر

گنہ ثواب کی خاطر ثواب ہے ساقی

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بود و باش اچھی

بہار آ کر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

مبارک مبارک نیا سال آیا

خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا

انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا

اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

تو واعظوں کی نہ سن میکشوں کی خدمت کر

گنہ ثواب کی خاطر ثواب ہے ساقی

رات بھر ان کا تصور دل کو تڑپاتا رہا

ایک نقشہ سامنے آتا رہا جاتا رہا

یہاں کیا دیکھتے ہو ناصحو گھر میں دھرا کیا ہے

مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اس کی

ہے قیامت ترے شباب کا رنگ

رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم

نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے