Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anjum Khaleeq's Photo'

انجم خلیق

1950

پاکستان کے شاعر اور صحافی

پاکستان کے شاعر اور صحافی

انجم خلیق کے اشعار

2.7K
Favorite

باعتبار

کیسا فراق کیسی جدائی کہاں کا ہجر

وہ جائے گا اگر تو خیالوں میں آئے گا

اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

تو یاس کے موسم میں بھی امید کا فن سیکھ

انسان کی نیت کا بھروسہ نہیں کوئی

ملتے ہو تو اس بات کو امکان میں رکھنا

کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے

کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے

زمیں کی گود میں اتنا سکون تھا انجمؔ

کہ جو گیا وہ سفر کی تھکان بھول گیا

زباں بندی کے موسم میں گلی کوچوں کی مت پوچھو

پرندوں کے چہکنے سے شجر آباد ہوتے ہیں

سو میری پیاس کا دونوں طرف علاج نہیں

ادھر ہے ایک سمندر ادھر ہے ایک سراب

بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں

کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں

ذرا سی میں نے ترجیحات کی ترتیب بدلی تھی

کہ آپس میں الجھ کر رہ گئے دنیا و دیں میرے

کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے

تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا

بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا

مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا

خود کو اذیتیں نہ دے مجھ کو اذیتیں نہ دے

خود پہ بھی اختیار رکھ مجھ پہ بھی اعتبار کر

ہم ایسے لوگ بہت خوش گمان ہوتے ہیں

یہ دل ضرور ترا اعتبار کر لے گا

میں اب تو شہر میں اس بات سے پہچانا جاتا ہوں

تمہارا ذکر کرنا اور کرتے ہی چلے جانا

اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا

پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی

اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے

میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں

کہو کیا بات کرتی ہے کبھی صحرا کی خاموشی

کہا اس خامشی میں بھی تو اک تقریر ہوتی ہے

مرے جنوں کو ہوس میں شمار کر لے گا

وہ میرے تیر سے مجھ کو شکار کر لے گا

سروں سے تاج بڑے جسم سے عبائیں بڑی

زمانے ہم نے ترا انتخاب دیکھ لیا

زرفشاں ہے مری زرخیز زمینوں کا بدن

ذرہ ذرہ مرے پنجاب کا پارس نکلا

مری ہوس کے مقابل یہ شہر چھوٹے ہیں

خلا میں جا کے نئی بستیاں تلاش کروں

ستم تو یہ ہے کہ فوج ستم میں بھی انجمؔ

بس اپنے لوگ ہی دیکھوں جدھر نگاہ کروں

بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں

یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا

تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی

کہ تن ڈھکنے پہ بھی جسموں کی عریانی نہیں جاتی

خمار قربت منزل تھا نارسی کا جواز

گلی میں آ کے میں اس کا مکان بھول گیا

جن کو کہا نہ جا سکا جن کو سنا نہیں گیا

وہ بھی ہیں کچھ حکایتیں ان کو بھی تو شمار کر

خاطر سے جو کرنا پڑی کج فہم کی تائید

لگتا تھا کہ انکار کشی ایک ہنر ہے

مری تعمیر بہتر شکل میں ہونے کو ہے انجمؔ

کہ جنگل صاف ہونے سے نگر آباد ہوتے ہیں

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

ہم جیسا مگر ذوق قوافی نہیں رکھتے

وحشت ہجر بھی تنہائی بھی میں بھی انجمؔ

جب اکٹھے ہوئے سب ایک غزل اور کہی

نخل انا میں زور نمو کس غضب کا تھا

یہ پیڑ تو خزاں میں بھی شاداب رہ گیا

یہ کون نکل آیا یہاں سیر چمن کو

شاخوں سے مہکتے ہوئے زیور نکل آئے

اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے

سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی

فراق رت میں بھی کچھ لذتیں وصال کی ہیں

خیال ہی میں ترے خال و خد ابھارا کریں

یہ کون ہے کہ جس کو ابھارے ہوئے ہے موج

وہ شخص کون تھا جو تہہ آب رہ گیا

اسی شرر کو جو اک عہد یاس نے بخشا

کبھی دیا کبھی جگنو کبھی ستارہ کریں

ان سنگ زنوں میں کوئی اپنا بھی تھا شاید

جو ڈھیر سے یہ قیمتی پتھر نکل آئے

ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ

جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے

مری خاطر سے یہ اک زخم جو مٹی نے کھایا ہے

ذرا کچھ اور ٹھہرو اس کے بھرتے ہی چلے جانا

Recitation

بولیے