Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anwar Shuoor's Photo'

انور شعور

1943 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک، ایک اخبار میں روزانہ حالات حاضرہ پر ایک قطعہ لکھتے ہیں

پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک، ایک اخبار میں روزانہ حالات حاضرہ پر ایک قطعہ لکھتے ہیں

انور شعور کے اشعار

40.8K
Favorite

باعتبار

میرے گھر کے تمام دروازے

تم سے کرتے ہیں پیار آ جاؤ

کسی غریب کو زخمی کریں کہ قتل کریں

نگاہ ناز پہ جرمانے تھوڑی ہوتے ہیں

جو کچھ کہو قبول ہے تکرار کیا کروں

شرمندہ اب تمہیں سر بازار کیا کروں

آدمی کے لیے رونا ہے بڑی بات شعورؔ

ہنس تو سکتے ہیں سب انسان ہنسی میں کیا ہے

ہمیشہ ہاتھوں میں ہوتے ہیں پھول ان کے لئے

کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

سامنے آ کر وہ کیا رہنے لگا

گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگا

لوگ صدموں سے مر نہیں جاتے

سامنے کی مثال ہے میری

اس تعلق میں نہیں ممکن طلاق

یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

کیا بادلوں میں سفر زندگی بھر

زمیں پر بنایا نہ گھر زندگی بھر

جناب کے رخ روشن کی دید ہو جاتی

تو ہم سیاہ نصیبوں کی عید ہو جاتی

زندگی کی ضرورتوں کا یہاں

حسرتوں میں شمار ہوتا ہے

نظام زر میں کسی اور کام کا کیا ہو

بس آدمی ہے کمانے کا اور کھانے کا

عشق تو ہر شخص کرتا ہے شعورؔ

تم نے اپنا حال یہ کیا کر لیا

ترے ہوتے جو جچتی ہی نہیں تھی

وہ صورت آج خاصی لگ رہی ہے

گو مجھے احساس تنہائی رہا شدت کے ساتھ

کاٹ دی آدھی صدی ایک اجنبی عورت کے ساتھ

محبت رہی چار دن زندگی میں

رہا چار دن کا اثر زندگی بھر

سبھی زندگی کے مزے لوٹتے ہیں

نہ آیا ہمیں یہ ہنر زندگی بھر

آدمی بن کے مرا آدمیوں میں رہنا

ایک الگ وضع ہے درویشی و سلطانی سے

زبان دل سے کوئی شاعری سناتا ہے

تو سامعین بھلاتے نہیں کلام اس کا

کہاں ہے شیخ کو سدھ بدھ مزید پینے کی

نشہ اتار گئے تین چار جام اس کا

رہے تذکرے امن کے آشتی کے

مگر بستیوں پر برستے رہے بم

مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک

مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک

تیری آس پہ جیتا تھا میں وہ بھی ختم ہوئی

اب دنیا میں کون ہے میرا کوئی نہیں میرا

دیوار زنداں کے پیچھے

جرم محبت میں بیٹھا ہوں

برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے

مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ

نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے

آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے

تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو

میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا

شعورؔ خود کو ذہین آدمی سمجھتے ہیں

یہ سادگی ہے تو واللہ انتہا کی ہے

کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے

تشریف لائیے گا ملاقات کے لئے

ہیں پتھروں کی زد پہ تمہاری گلی میں ہم

کیا آئے تھے یہاں اسی برسات کے لیے

مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے

اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا

کوئی زنجیر نہیں تار نظر سے مضبوط

ہم نے اس چاند پہ ڈالی ہے کمند آنکھوں سے

ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخ تاباں پہ نظر

دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا

شعورؔ تم نے خدا جانے کیا کیا ہوگا

ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں

شعورؔ صرف ارادے سے کچھ نہیں ہوتا

عمل ہے شرط ارادے سبھی کے ہوتے ہیں

وہ مجھ سے روٹھ نہ جاتی تو اور کیا کرتی

مری خطائیں مری لغزشیں ہی ایسی تھیں

بہت ارادہ کیا کوئی کام کرنے کا

مگر عمل نہ ہوا الجھنیں ہی ایسی تھیں

مرنے والا خود روٹھا تھا

یا ناراض حیات ہوئی تھی

زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا

مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں

چلے آیا کرو میری طرف بھی!

محبت کرنے والا آدمی ہوں

صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں

خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

دوست کہتا ہوں تمہیں شاعر نہیں کہتا شعورؔ

دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ

کہہ تو سکتا ہوں مگر مجبور کر سکتا نہیں

اختیار اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ

اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ

خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ

خواہ دل سے مجھے نہ چاہے وہ

ظاہری وضع تو نباہے وہ

سچ ہے عمر بھر کس کا کون ساتھ دیتا ہے

غم بھی ہو گیا رخصت دل کو چھوڑ کر تنہا

گو کٹھن ہے طے کرنا عمر کا سفر تنہا

لوٹ کر نہ دیکھوں گا چل پڑا اگر تنہا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے