Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bahadur Shah Zafar's Photo'

بہادر شاہ ظفر

1775 - 1862 | دلی, انڈیا

آخری مغل بادشاہ ۔ غالب اور ذوق کے ہم عصر

آخری مغل بادشاہ ۔ غالب اور ذوق کے ہم عصر

بہادر شاہ ظفر کے اشعار

50.2K
Favorite

باعتبار

ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے

پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے

ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف

سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے

ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے

محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو

بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

ادھر خیال مرے دل میں زلف کا گزرا

ادھر وہ کھاتا ہوا دل میں پیچ و تاب آیا

جا کہیو میرا نسیم سحر

مرا چین گیا مری نیند گئی

خواب میرا ہے عین بیداری

میں تو اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں

برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن

کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بدگوئی سے کیا حاصل

ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ

کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو

بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں

سنے ہے کون مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو

مرے فسانۂ غم کو مری زباں سے سنو

کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

نہ کوہ کن ہے نہ مجنوں کہ تھے مرے ہمدرد

میں اپنا درد محبت کہوں تو کس سے کہوں

پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں

آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

ہمدمو دل کے لگانے میں کہو لگتا ہے کیا

پر چھڑانا اس کا مشکل ہے لگانا سہل ہے

اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل

بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

لڑا کر آنکھ اس سے ہم نے دشمن کر لیا اپنا

نگہ کو ناز کو انداز کو ابرو کو مژگاں کو

نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا

مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا

حال دل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح

روبرو ان کے نہیں چلتی زباں اچھی طرح

دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ

بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی

تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں

ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا

کیا تاب کیا مجال ہماری کہ بوسہ لیں

لب کو تمہارے لب سے ملا کر کہے بغیر

میرے سرخ لہو سے چمکی کتنے ہاتھوں میں مہندی

شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے

دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ

گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں

خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے

کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا

تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا

شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا

سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں

گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے

جو تو ہو صاف تو کچھ میں بھی صاف تجھ سے کہوں

ترے ہے دل میں کدورت کہوں تو کس سے کہوں

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں

یار تھا گلزار تھا باد صبا تھی میں نہ تھا

لائق پابوس جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھا

محبت کے یہ معنی ہیں کہ میں نے

وہی چاہا کہ جو کچھ تو نے چاہا

ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے

پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے

سہم کر اے ظفرؔ اس شوخ کماندار سے کہہ

کھینچ کر دیکھ مرے سینے سے تو تیر نہ توڑ

غضب ہے کہ دل میں تو رکھو کدورت

کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں

لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل

نہ کچھ ہم ہنس کے سیکھے ہیں نہ کچھ ہم رو کے سیکھے ہیں

جو کچھ تھوڑا سا سیکھے ہیں تمہارے ہو کے سیکھے ہیں

ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار

اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی

اے وائے انقلاب زمانے کے جور سے

دلی ظفرؔ کے ہاتھ سے پل میں نکل گئی

بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ

کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے

نہ دوں گا دل اسے میں یہ ہمیشہ کہتا تھا

وہ آج لے ہی گیا اور ظفرؔ سے کچھ نہ ہوا

نہ مجھ کو کہنے کی طاقت کہوں تو کیا احوال

نہ اس کو سننے کی فرصت کہوں تو کس سے کہوں

میں سسکتا رہ گیا اور مر گئے فرہاد و قیس

کیا انہی دونوں کے حصے میں قضا تھی میں نہ تھا

ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا

کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا

Recitation

بولیے