Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Muzaffar Hanfi's Photo'

مظفر حنفی

1936 - 2020 | دلی, انڈیا

ممتاز جدید شاعروں میں معروف

ممتاز جدید شاعروں میں معروف

مظفر حنفی کے اشعار

2.5K
Favorite

باعتبار

سنتا ہوں کہ تجھ کو بھی زمانے سے گلہ ہے

مجھ کو بھی یہ دنیا نہیں راس آئی ادھر آ

روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی

شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا

مجھ سے مت بولو میں آج بھرا بیٹھا ہوں

سگریٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں

شکریہ ریشمی دلاسے کا

تیر تو آپ نے بھی مارا تھا

کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل

آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا

کانٹے بونے والے سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے

جیسے راہی رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے

سنائیے وہ لطیفہ ہر ایک جام کے ساتھ

کہ ایک بوند سے ایمان ٹوٹ جاتا ہے

بتائیں کیا کہ بے چینی بڑھاتے ہیں وہی آ کر

بہت بے چین ہم جن کے لیے معلوم ہوتے ہیں

بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا

اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں

فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے

ویرانی امڈی پڑتی ہے گھر کے کونے کونے سے

اب تک تو خودکشی کا ارادہ نہیں کیا

ملتا ہے کیوں ندی کے کنارے مجھے کوئی

اس نے مجھ کو یاد فرمایا یقیناً

جسم میں آیا ہوا ہے زلزلہ سا

جب سرابوں پہ قناعت کا سلیقہ آیا

ریت کو ہاتھ لگایا تو وہیں پانی تھی

شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں

لفظوں کے جنگل میں معنی بھٹک رہے ہیں

کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک

کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی

غموں پر مسکرا لیتے ہیں لیکن مسکرا کر ہم

خود اپنی ہی نظر میں چور سے معلوم ہوتے ہیں

غموں پر مسکرا لیتے ہیں لیکن مسکرا کر ہم

خود اپنی ہی نظر میں چور سے معلوم ہوتے ہیں

اب تک تو خودکشی کا ارادہ نہیں کیا

ملتا ہے کیوں ندی کے کنارے مجھے کوئی

کچھ بھی ہوں دلی کے کوچے

تجھ بن مجھ کو گھر کاٹے گا

میرے تیکھے شعر کی قیمت دکھتی رگ پر کاری چوٹ

چکنی چپڑی غزلیں بے شک آپ خریدیں سونے سے

دیکھنا کیسے ہمکنے لگے سارے پتھر

میری وحشت کو تمہاری گلی پہچانتی ہے

یوں پلک پر جگمگانا دو گھڑی کا عیش ہے

روشنی بن کر مرے اندر ہی اندر پھیل جا

بھیڑیے اور اشتراک شدہ

بیچ میں اک ہرن ہلاک شدہ

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ

سنا اے دوستو تم نے کہ شاعر ہیں مظفرؔ بھی

بہ ظاہر آدمی کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں

اے مظفر کس لئے بھوپال یاد آنے لگا

کیا سمجھتے تھے کہ دلی میں نہ ہوگا آسماں

سنا اے دوستو تم نے کہ شاعر ہیں مظفرؔ بھی

بہ ظاہر آدمی کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں

سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا

چراغ کی لو بلند تھی اور رات کم تھی

آنگن میں یہ رات کی رانی سانپوں کا گھر کاٹ اسے

کمرہ البتہ سونا ہے کونے میں گلدان لگا

شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو

ہمارے قد سے کم نہ ہو فراز دار دیکھنا

یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں

جیسے دیوان میر چاک‌ شدہ

موسم نے کھیت کھیت اگائی ہے فصل زرد

سرسوں کے کھیت ہیں کے جو پیلے نہیں رہے

ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے