Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shaikh Ibrahim Zauq's Photo'

شیخ ابراہیم ذوقؔ

1790 - 1854 | دلی, انڈیا

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور ملک الشعرا۔ غالب کے ساتھ ان کی رقابت مشہور ہے

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور ملک الشعرا۔ غالب کے ساتھ ان کی رقابت مشہور ہے

شیخ ابراہیم ذوقؔ کے اشعار

43.5K
Favorite

باعتبار

اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ

ورنہ جگر کو روئے گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ

اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

وقت پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

بے قراری کا سبب ہر کام کی امید ہے

ناامیدی ہو تو پھر آرام کی امید ہے

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

نکالوں کس طرح سینے سے اپنے تیر جاناں کو

نہ پیکاں دل کو چھوڑے ہے نہ دل چھوڑے ہے پیکاں کو

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

دیں کیوں کہ نہ وہ داغ الم اور زیادہ

قیمت میں بڑھے دل کے درم اور زیادہ

بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خم مے کی طرح ہم

پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی

عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو

یہ عمر رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو

سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے

کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

لیتے ہیں ثمر شاخ ثمرور کو جھکا کر

جھکتے ہیں سخی وقت کرم اور زیادہ

شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا

ورنہ ایمان گیا ہی تھا خدا نے رکھا

اثر نغمۂ شیریں سے جہاں بھول گیا

کہ سوا راگ کے سم کے ہے کوئی اور بھی سم

تشریح

سم ہندوستانی موسیقی کی اصطلاح ہے۔ اس کا تعلق تال سے ہے۔ تال کہتے ہیں موسیقی کے وزن کو۔ جس طرح ہمارا عروضی نظام ارکان پر مبنی ہے اسی طرح ہندوستانی موسیقی میں تال کا نظام ماتراؤں پر مبنی ہے۔ جیسے دھا گے نا تی نا کے دھن نا(آٹھ ماترائیں: کہروا تال)۔ سم اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں تال کا آغاز ہوتا ہے۔ تال کی پہلی ماترا سم کہلاتی ہے۔ ہر تال چکر میں ایک ہی بار سم آتا ہے۔ سنگیت میں خاص زور دے کر سم کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر گانے کا اختتام سم پر ہی ہوتا ہے۔ تال کی زبان میں سم کی جگہوں پر ضرب کا نشان لگایا جاتا ہے۔

ذوقؔ کے شعر میں تجنیس تام نے بات بنائی ہے۔ شعر میں سم دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سم بمعنی تال کا سم اور سم بمعنی زہر۔ شعر کی ایک خوبی تضاد بھی ہے۔ یعنی شیریں کے مقابلے میں زہر جو کڑوا ہوتا ہے۔شعرمیں’’اثرِ نغمۂ شیریں‘‘ کی ترکیب جادو بیانی کی اعلیٰ مثال ہے۔ رعایتیں خوب ہیں۔ نغمہ کی رعایت سے راگ اور سم، شیریں کی رعایت سے سم(بمعنی زہر)مضمون میں تاثر پیدا کرتے ہیں۔ خیال نہایت ہی نازک ہے کہ شیریں نغمہ جب کسی پر اثر کرتا ہے تو اسے زہر بھی شیریں ہی لگتا ہے۔ یعنی جب (اس بات کا اگرچہ شعر کے کسی تلازمے میں اشارہ نہیں ملتا مگر ایسا فرض کرنے میں کوئی قباحت نہیں) میرے محبوب نے نغمہ چھیڑا تو اس کی شیرینی کا یہ عالم تھا کہ جہاںیعنی سننے والے ہے یہ بھول گیے کہ راگ کے سم کے سوا کوئی اور سم بھی ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نغمہ سننے والے اس قدر شیرینی میں محو ہوگیے کہ جب انہیں زہر پلایا گیا تو انہیں تلخی محسوس نہیں ہوئی۔

یہ ہے کمال ہمارے اساتذہ کا۔

شفق سوپوری

ہمیں نرگس کا دستہ غیر کے ہاتھوں سے کیوں بھیجا

جو آنکھیں ہی دکھانی تھیں دکھاتے اپنی نظروں سے

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن

کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

موذن مرحبا بر وقت بولا

تری آواز مکے اور مدینے

ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں

شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو

دل خانہ خراب کی باتیں

جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی

آپ کی گر یوں خوشی ہے مہرباں یوں ہی سہی

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے

ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں

بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی

ہو گیا موقوف یہ سوداؔ کا بالکل احتراق

لالہ بے داغ سیہ پانے لگا نشو و نما

تشریح

یہ شعر ذوقؔ کے قصیدہ اوّل کی تشبیب سے لیا گیا ہے۔ شعر میں کئی معنی اور تہ داری ہےجس کے لیے ذوقؔ نے استعاروں اور رعایتوں سے خوب کام لیا ہے۔ ان استعاروں اور رعایتوں نے اگر چہ شعر کے معنی کو کثیر الجہت بنایا ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ ان کی وجہ سے ہی شعر میں پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ چنانچہ کوئی کتنا ہی سریع الفہم کیوں نہ ہو جب تک اس کے تلازمات سے واقف نہ ہو شعر کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ سو پہلے شعر کی لغات پر بات کرتے ہیں۔

1: سودا: (عربی) سیاہ۔ نام ایک خلط کا چار خلطوں میں سےیعنی1: خون۔2: صفرا۔3: سودا۔4: بلغم۔ (فارسی) بمعنی دیوانگی اور یہ مجاز ہے اس لیے کہ بسببِ کثرتِ خلط سودا کے جنون پیدا ہوتا ہے اور کبھی کبھی بمعنی عشق بھی آتا ہے۔(لغاتِ کشوری)اخلاطِ رابعہ میں سے ایک سیاہ خلط کا نام۔ بلغمِ سوختہ

چار اخلاط ہیں اندوہ، غم و رنج و الم

خون بلغم ہے میرے تن میں نہ صفرا سودا

(امیرؔ)

خبط، جنون(چونکہ خلطِ سودا کے بڑھ جانے سے جنون پیدا ہوتا ہے اس وجہ سے فارسی والے اس معنی میں مستعمل کرنے لگے۔عشق۔فریفتگی(فرہنگِ آصفیہ) فیروز الغات کا کہنا بھی یہی ہے۔

لفظ خلط کے بارے میں لغاتِ فارسی یوں کہتے ہیں:’’ ہر یک از عنا صرِ چہار گانۂ بدن(سودا، صفرا بلغم، خون) (طبِ قدیم)(عمید)

2: احتراق: جل جانا۔ سوخت ہونا۔(کشوری) آصفیہ میں ندارد۔ گرمی کی شدت۔ جلن۔ جل جانے کی کیفیت،(نجوم) کسی سیّارے کا آفتاب کے ساتھ ایک برج میں ہونے کے سبب اس کی شعاعوں میں چھپ جانا۔(فیروز)جلانا۔ پھونکنا۔ (طب کی اصطلاح) احتراقِ اخلاط۔ اس کو کہتے ہیں کہ حرارت کے سبب کسی خلط کے اجزائے لطیف و رقیق فانی ہوجاتے ہیں اور مابقی اس طرح کثیف ہوجائیں کہ وہ اپنی خلط اور اپنی جنس سے خارج ہو نہ کہ جل کر خاکستر ہوجائے۔ اور جو خلطِ محترق ہوتا ہے وہ سودائے غیر طبیعی ہوجاتا ہے۔(منجموں کی اصطلاح میں) منجملہ زہرہ، مشتری، مریخ، زحل اور عطارو کے کسی سیّارے کا آفتاب کے ساتھ ایک برج میں ہونا اور اس کی شعاعوں میں چھپ جانا؎

کیا فروغ آتشِ فراق میں ہے

مشتری زہرہ احتراق میں ہے

(مومن: مثنوی)(نور لغات)

میرؔ کا یہ شعر بھی خاطر نشان رکھیں:؎

احراق اپنے قلب کا رونے سے کب گیا

پانی کی چار بوندیں ہیں کیا احتراق میں

احراق: جلانا، جلن، سوزش۔

3: لالہ: ایک قسم کا سرخ پھول جس کے اندر سیاہ داغ ہوتا ہے:؎

جگر کو داغ میں مانندِ لالہ کیا کرتا

لبالب اپنے لہو کا پیالہ کیا کرتا

(آتشؔ)

4 :داغ: جلنے کا نشان۔ جلا ہوا نشان۔(آصفیہ)

5 :بالکل: تمام۔ سر تا سر

6 :یہ: اس طرح۔ یوں۔ ایسے۔

اخلاط کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ایک روایت کے مطابق یونان کے ایک حکیم اسقلیبوس نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ انسانی جسم کا نظام چار اخلاط پر قائم ہے۔ ان چار خلطوں کے چار رنگ ہیں۔ صفرا زرد، خون سرخ، سودا کالا، بلغم سفید۔ جب ان میں کسی طرح کی بے اعتدالی پیدا ہوجاتی تو حکیم سا ل میں دو دفعہ بدن کی صفائی کرتے۔ صفائی کا عمل یہ تھا کہ دس دن دوائیاں اور بارہویں دن ٹھنڈائی دیتے۔

اگرچہ زیرِ بحث شعر کو ’’سودا‘‘ ’’احتراق‘‘ اور لالہ بے داغ سیہ‘‘ جیسے تلازمات نے پیچیدہ بنادیا ہے تاہم اس بات کی داد دینی چاہیے کہ ذوقؔ علمِ طب اور علم نجوم کی اصطلاحات سے بخوبی واقف تھے۔ علم طب و نجوم سے واقفیت کوئی کمال نہیں بلکہ کمال یہ ہے ذوقؔ نے ان کو تلازمہ بنا کر شعر میں کئی مضامین پیدا کیے ہیں۔ شعر کی مناسبتوں پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران ہوکر رہ جاتی ہے۔ مثلاً سودا(سیاہ) کی مناسبت سےلالہ بے داغِ سیہ، سودا (بمعنی خلط ) کی مناسبت سے احتراق( خلط کانام)، سودا ( بمعنی جنون) کی مناسبت سے احتراق بمعنی دیوانگی، داغ (بمعنی جلنے کا نشان، جلا ہوا نشان) کی مناسبت سے داغِ سیہ،احتراق (بمعنی سوخت ہوجانا، جل جانا) کی مناسبت سے داغِ سیہ اور لالہ کی مناسبت سے نشو و نما۔ غرضیکہ حیران کن مناسبتوں نے اس شعر کے معنی میں غضب کی تہ داری پیدا کی ہے۔

اب شعر کے ممکنہ مفہوم پر غور کرتے ہیں:

1 :چونکہ سودا (چار خلطوں میں سے ایک) کا احتراق (جل کر خاکستر ہونا) کچھ ایسے موقوف (ٹھہرایا جانا۔ برخاست کرنا) ہوگیا ہے کہ اس کے نتیجے میں (چمن میں) لالہ سیاہ داغ کے بغیر نشو ونما پانے لگے۔ گویا لالہ کے سینے میں سودا کی وجہ سے ہی سیاہ داغ پڑ چکا تھا۔ اب جبکہ سودا کا احتراق موقوف ہوگیا تو لالہ بے داغِ سیاہ نشوو نما پانے لگا۔

2 :چونکہ سودا(بمعنی فریفتگی، عشق) سے ہونے والی جلن اور سوزش ختم ہوگئی ہے تو اس کے نتیجے میں چمن کے اندر لالہ سیاہ داغ کے بغیر نشو و نما پانے لگا۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ سویدا(نقطۂ سیاہ جو دل پر ہوتا ہے اور یہ تصغیر سودا کی ہے جو اسود کا مونّث ہے(کشوری) کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ داغِ عشق ہے جو عاشقوں کے دل پر لگتا ہے:؎

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست

ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

(غالبؔ)

اس شعر کی تشریح غلام رسول مہر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’ عشق کی پریشانی کے باعث دل سے آہ و فغاں کا دھواں اٹھتا رہتا تھا۔ اس دھویں سے دل کے سیاہ نقطے کی صورت قائم ہوئی۔ وغیرہ۔‘‘

3:(چونکہ)سودا(ایک خلط) کے احتراق( کسی سیّارے کا آفتاب کے ساتھ ایک برج میں ہونے کے سبب اس کی شعاعوں میں چھپ جانا) میں ہونے سے جو اندھیرا لالہ کے سینے میں داغ کی صورت میں نظر آتا تھا وہ احتراق کچھ اس طور ختم ہوگیا کہ لالہ کے سینے میں اب داغ نہیں رہا۔ یعنی اب لالہ بغیر سیاہ داغ کے نشو و نما پانے لگا۔

کیا عجب شعر ہے

شفق سوپوری

کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے

لے چلا آج وہیں پھر دل بے تاب مجھے

احسان نا خدا کا اٹھائے مری بلا

کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں

یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں

واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا

آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا

تشریح

یہ ذوق کا ایک خوبصورت شعر ہے اور اس میں ذوقؔ نے ایک اہم نکتے والی بات بتائی ہے۔ اگرچہ اس شعر کا اہم لفظ تکلف ہے مگر تکلیف کی رعایت سے آرام بہت تکلیف پیدا کرتے ہیں۔

ذوق اس شعر میں تکلف یعنی بناوٹ کی بدعت پر روشنی ڈالتے ہی۔ بناوٹ وہ چیز ہووتی ہے جس میں حقیقت نہ ہو یعنی جو بناوٹی ہو۔ بناوٹ زندگی کے تمام معاملات میں بھی ہوتی ہے اور رشتوں میں بھی۔ عام معاملات میں بناوٹ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی وہ حیثیت دکھانے کی کوشش کرے جو اصلی نہ ہو اور رشتوں میں بناوٹ سے مراد ایسے جذبات کا اظہار کرنا جو حقیقی نہ ہوں۔ بہرحال معاملہ جو بھی ہے اگر انسان عام معاملات میں بناوٹ سے کام لے تو خود کوو نقصان پہنچاتا ہے اور اگر رشتوں میں بناوٹ سے کام لے تو ایک نہ ایک دن تو بناوٹ کھل ہی جاتی ہے پھر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔

ذوق کہتے کہ دراصل بناوٹ اور تضع ایک بھرپور تکلیف ہے اور جو آدمی بناوٹ سے کام نہیں لیتا اگرچہ وقتی طور پر اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر بالآخر آرام میں ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو بناوٹ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

شفق سوپوری

رلائے گی مری یاد ان کو مدتوں صاحب

کریں گے بزم میں محسوس جب کمی میری

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا

پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا

دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ

تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے

ہے عین وصل میں بھی مری چشم سوئے در

لپکا جو پڑ گیا ہے مجھے انتظار کا

گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے میں

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا

ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ

اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے

کہتے ہیں آج ذوقؔ جہاں سے گزر گیا

کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے

جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

پیر مغاں کے پاس وہ دارو ہے جس سے ذوقؔ

نامرد مرد مرد جواں مرد ہو گیا

مسجد میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا

کافر کی شوخی دیکھو گھر میں خدا کے مارا

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ

اولاد سے رہے یہی دو پشت چار پشت

گل اس نگہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا

یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا

خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے

حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

حق نے تجھ کو اک زباں دی اور دیئے ہیں کان دو

اس کے یہ معنی کہے اک اور سنے انسان دو

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب

ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

ہو عمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ

ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے

ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب

یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے

موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں

ہے وہ خودبیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے