Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

قائم چاندپوری

1725 - 1794 | فیض آباد, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے ممتاز شاعر، میر تقی میر کے ہم عصر

اٹھارہویں صدی کے ممتاز شاعر، میر تقی میر کے ہم عصر

قائم چاندپوری کے اشعار

4.1K
Favorite

باعتبار

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پہ اس طرح

دشمن کے گھر میں جیسے کوئی میہماں رہے

کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا

ہر اک محلہ کی مسجد شراب خانہ تھا

دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا

درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا

ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کر

روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا

غیر سے ملنا تمہارا سن کے گو ہم چپ رہے

پر سنا ہوگا کہ تم کو اک جہاں نے کیا کہا

میں کن آنکھوں سے یہ دیکھوں کہ سایہ ساتھ ہو تیرے

مجھے چلنے دے آگے یا ٹک اس کو پیشتر لے جا

دل سے بس ہاتھ اٹھا تو اب اے عشق

دہ ویران پر خراج نہیں

کس بات پر تری میں کروں اعتبار ہائے

اقرار یک طرف ہے تو انکار یک طرف

چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت

پر جس میں یہ دوری ہو وہ کیا خاک محبت

کب میں کہتا ہوں کہ تیرا میں گنہ گار نہ تھا

لیکن اتنی تو عقوبت کا سزا وار نہ تھا

ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ

کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

جس مصلے پہ چھڑکئے نہ شراب

اپنے آئین میں وہ پاک نہیں

آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی

سرکار کی نظر کو تو پہچانتا ہوں میں

قائمؔ میں اختیار کیا شاعری کا عیب

پہنچا نہ کوئی شخص جب اپنے ہنر تلک

میں ہوں کہ میرے دکھ پہ کوئی چشم تر نہ ہو

مر بھی اگر رہوں تو کسی کو خبر نہ ہوں

ٹکڑے کئی اک دل کے میں آپس میں سئے ہیں

پھر صبح تلک رونے کے اسباب کئے ہیں

مے کی توبہ کو تو مدت ہوئی قائمؔ لیکن

بے طلب اب بھی جو مل جائے تو انکار نہیں

اہل مسجد نے جو کافر مجھے سمجھا تو کیا

ساکن دیر تو جانے ہیں مسلماں مجھ کو

مے پی جو چاہے آتش دوزخ سے تو نجات

جلتا نہیں وہ عضو جو تر ہو شراب میں

شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو

پہنچی جو کچھ اذیت اپنے گماں سے مجھ کو

یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم

کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو

گندمی رنگ جو ہے دنیا میں

میری چھاتی پہ مونگ دلتا ہے

میں دوانا ہوں صدا کا مجھے مت قید کرو

جی نکل جائے گا زنجیر کی جھنکار کے ساتھ

پہلے ہی اپنی کون تھی واں قدر و منزلت

پر شب کی منتوں نے ڈبو دی رہی سہی

پوچھو ہو مجھ سے تم کہ پیے گا بھی تو شراب

ایسا کہاں کا شیخ ہوں یا پارسا ہوں میں

سیر اس کوچہ کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں

جا کے بولا کہ بس اب آگے میں جل جاؤں گا

قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار

اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر

سنگ کو آب کریں پل میں ہماری باتیں

لیکن افسوس یہی ہے کہ کہاں سنتے ہو

ہر عضو ہے دل فریب تیرا

کہئے کسے کون سا ہے بہتر

نہ جانے کون سی ساعت چمن سے بچھڑے تھے

کہ آنکھ بھر کے نہ پھر سوئے گلستاں دیکھا

صبح تک تھا وہیں یہ مخلص بھی

آپ رکھتے تھے شب جہاں تشریف

ہر دم آنے سے میں بھی ہوں نادم

کیا کروں پر رہا نہیں جاتا

گرم کر دے تو ٹک آغوش میں آ

مارے جاڑے کے ٹھرے بیٹھے ہیں

لگائی آگ پانی میں یہ کس کے عکس نے پیارے

کہ ہم دیگر چلی ہیں موج سے دریا میں شمشیریں

قاضی خبر لے مے کو بھی لکھا ہے واں مباح

رشوت کا ہے جواز تری جس کتاب میں

کہتا ہے آئنہ کہ ہے تجھ سا ہی ایک اور

باور نہیں تو لا میں ترے روبرو کروں

پہلے ہی گدھا ملے جہاں شیخ

اس کعبہ کو ہے سلام اپنا

بنا تھی عیش جہاں کی تمام غفلت پر

کھلی جو آنکھ تو گویا کہ احتلام ہوا

دختر رز تو ہے بیٹی سی ترے اوپر حرام

رند اس رشتہ سے سارے ترے داماد ہیں شیخ

پروانے کی شب کی شام ہوں میں

یا روز کی شمع کی سحر ہوں

شیخ جی کیونکہ معاصی سے بچیں ہم کہ گناہ

ارث ہے اپنی ہم آدم کے اگر پوتے ہیں

قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ

اک بات لچر سی بزبان دکنی تھی

شیخ جی مانا میں اس کو تم فرشتہ ہو تو ہو

لیک حضرت آدمی ہونا نہایت دور ہے

درد دل کیوں کہ کہوں میں اس سے

ہر طرف لوگ گھرے بیٹھے ہیں

ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ

اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا

تھوڑی سی بات میں قائمؔ کی تو ہوتا ہے خفا

کچھ حرمزدگئیں اپنی بھی تجھے یاد ہیں شیخ

وحشت دل کوئی شہروں میں سما سکتی ہے

کاش لے جائے جنوں سوئے بیاباں مجھ کو

مجھ بے گنہ کے قتل کا آہنگ کب تلک

آ اب بنائے صلح رکھیں جنگ کب تلک

قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول

ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے