شعر پر اشعار
شعرپر یا شاعری پرکی
جانے والی شاعری کئی معنی میں اہم ہے ۔ یہ شاعری ہمیں شعر سازی کی ترکیبوں اورفن کی باریکیوں سے بھی آگاہ کرتی ہے اوربعض اوقات شاعری کے مقاصد اوراس سےمتعلق بہت سےمعاملات پرروشنی ڈالتی ہے۔
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے یوں ہے
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا
-
موضوعات : مشہور اشعاراور 1 مزید
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
لوگ کہتے ہیں کہ فن شاعری منحوس ہے
شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں
راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن
سادہ سمجھو نہ انہیں رہنے دو دیواں میں امیرؔ
یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے
اس کا تو ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ہے یاد
کل رات ایک شعر کہا تھا جو خواب میں
شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں
مجھ کو مرنے نہ دیا شعر اتارے مجھ پر
عشق نے بس یہ مرے ساتھ رعایت کی تھی
-
موضوع : عشق
مرے انگ انگ میں بس گئی
یہ جو شاعری ہے یہ کون ہے
ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
-
موضوع : مشہور اشعار
بھوک تخلیق کا ٹیلنٹ بڑھا دیتی ہے
پیٹ خالی ہو تو ہم شعر نیا کہتے ہیں
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
-
موضوع : مشہور اشعار
شاعری میں انفس و آفاق مبہم ہیں ابھی
استعارہ ہی حقیقت میں خدا سا خواب ہے
ہمارے شعر کو سن کر سکوت خوب نہیں
بیان کیجئے اس میں جو کچھ تأمل ہو
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دو پشت چار پشت
سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا
میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا
-
موضوعات : اردواور 1 مزید
زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی
چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
کیفؔ یوں آغوش فن میں ذہن کو نیند آ گئی
جیسے ماں کی گود میں بچہ سسک کر سو گیا
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر
اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا
دیکھو ہم نے پیٹ کی خاطر کیا کیا کاروبار کیا
اس کو سمجھو نہ خط نفس حفیظؔ
اور ہی کچھ ہے شاعری سے غرض
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے
مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
-
موضوع : رسوائی
سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا