Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نقاب پر اشعار

نقاب کو کلاسیکی شاعری

میں بہت دلچسپ طریقوں سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ محبوب ہے کہ اپنے حسن کو نقاب سے چھائے رہتا ہے اور عاشق دیدار کو ترستا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نقاب بھی محبوب کے حسن کو چھپا نہیں پاتا اوراسے چھپائے رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں ۔ ایسے اور بھی مزےدار گوشے نقاب پر کی جانے والی شاعری کے اس انتخاب میں ہیں ۔ آپ پڑھئے اور لطف لیجئے ۔

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

داغؔ دہلوی

اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا

کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم

جگر مراد آبادی

آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسن یار

کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی

جلیل مانک پوری

ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب

یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا

شہزاد احمد

اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا

کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں

مغیث الدین فریدی

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

امیر مینائی

ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی

ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

انور مرزاپوری

دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر

ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر

مصحفی غلام ہمدانی

تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک

قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا

حفیظ جالندھری

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

ساغر صدیقی

خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو

گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں

بیدل حیدری

جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں

قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں

حفیظ بنارسی

کب تک چھپاؤگے رخ زیبا نقاب میں

برق جمال رہ نہیں سکتا حجاب میں

نامعلوم

گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی

وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی

آغا حشر کاشمیری

اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے

کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ

ہاشم علی خاں دلازاک

ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارا

تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں

عرش ملسیانی

تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے

لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا

جلیل مانک پوری

دیدار سے پہلے ہی کیا حال ہوا دل کا

کیا ہوگا جو الٹیں گے وہ رخ سے نقاب آخر

واصف دہلوی

نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے

وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے

ماہر القادری

ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا

ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے

شکیل بدایونی

نقاب کہتی ہے میں پردۂ قیامت ہوں

اگر یقین نہ ہو دیکھ لو اٹھا کے مجھے

جلیل مانک پوری

اگرچہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں

چھپانے کی چیزیں چھپائے ہوئے ہیں

احمد حسین مائل

تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

قمر جلالوی

الٹی اک ہاتھ سے نقاب ان کی

ایک سے اپنے دل کو تھام لیا

جلیل مانک پوری

آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا

کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے

اکبر حیدرآبادی

اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے

کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے

جلیل مانک پوری

کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو

اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی

جلیل مانک پوری

دیکھتا میں اسے کیوں کر کہ نقاب اٹھتے ہی

بن کے دیوار کھڑی ہو گئی حیرت میری

جلیل مانک پوری

ذرا پردہ ہٹا دو سامنے سے بجلیاں چمکیں

مرا دل جلوہ گاہ طور بن جائے تو اچھا ہو

علی ظہیر رضوی لکھنوی

مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں

چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا

اکبر حیدرآبادی

نقاب اٹھاؤ تو ہر شے کو پاؤ گے سالم

یہ کائنات بطور حجاب ٹوٹتی ہے

مشکور حسین یاد
بولیے