Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sahir Ludhianvi's Photo'

ساحر لدھیانوی

1921 - 1980 | ممبئی, انڈیا

اہم ترین ترقی پسند شاعر اور مشہور نغمہ نگار۔ اپنی احتجاجی شاعری کے لئے مقبول

اہم ترین ترقی پسند شاعر اور مشہور نغمہ نگار۔ اپنی احتجاجی شاعری کے لئے مقبول

ساحر لدھیانوی کے اشعار

175.1K
Favorite

باعتبار

مایوسئ مآل محبت نہ پوچھئے

اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم

ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو

چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں

ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار

ہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

ہر کوچہ شعلہ زار ہے ہر شہر قتل گاہ

یکجہتئ حیات کے آداب کیا ہوئے

جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں

کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں

تمہارے عہد وفا کو میں عہد کیا سمجھوں

مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں

مجرم ہوں میں اگر تو گنہ گار تم بھی ہو

اے رہبران قوم خطا کار تم بھی ہو

اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے

سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں

محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا

جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

بے پئے ہی شراب سے نفرت

یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے

آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں

ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت

دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں

برا کیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دے دو

مری ندیم محبت کی رفعتوں سے نہ گر

بلند بام حرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے

کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

یوں ہی دل نے چاہا تھا رونا رلانا

تری یاد تو بن گئی اک بہانا

دل کے معاملے میں نتیجے کی فکر کیا

آگے ہے عشق جرم و سزا کے مقام سے

نالاں ہوں میں بیداریٔ احساس کے ہاتھوں

دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی

آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو

انجان ہیں ہم تم اگر انجان ہیں آنکھیں

اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں

تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی

طرب زاروں پہ کیا گزری صنم خانوں پہ کیا گزری

دل زندہ مرے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری

بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے

اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے

تم نے صرف چاہا ہے ہم نے چھو کے دیکھے ہیں

پیرہن گھٹاؤں کے جسم برق پاروں کے

ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں

وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

اندھیری شب میں بھی تعمیر آشیاں نہ رکے

نہیں چراغ تو کیا برق تو چمکتی ہے

اب آئیں یا نہ آئیں ادھر پوچھتے چلو

کیا چاہتی ہے ان کی نظر پوچھتے چلو

ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب

ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں

ہم جرم محبت کی سزا پائیں گے تنہا

جو تجھ سے ہوئی ہو وہ خطا ساتھ لیے جا

ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے

خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں

تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے

تیرے ہاتھوں میں مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں

رنگوں میں تیرا عکس ڈھلا تو نہ ڈھل سکی

سانسوں کی آنچ جسم کی خوشبو نہ ڈھل سکی

ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی

جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے

تم میرے لیے اب کوئی الزام نہ ڈھونڈو

چاہا تھا تمہیں اک یہی الزام بہت ہے

میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں

وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

وہ دل جو میں نے مانگا تھا مگر غیروں نے پایا ہے

بڑی شے ہے اگر اس کی پشیمانی مجھے دے دو

بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو

بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

ہم سے اگر ہے ترک تعلق تو کیا ہوا

یارو کوئی تو ان کی خبر پوچھتے چلو

ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے

الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا

اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ

جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا

بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے