Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Musavvir Sabzwari's Photo'

مصور سبزواری

1932 - 2002 | گڑگاؤں, انڈیا

ممتاز جدید شاعر

ممتاز جدید شاعر

مصور سبزواری کے اشعار

6.9K
Favorite

باعتبار

اپنے ہونے کا کچھ احساس نہ ہونے سے ہوا

خود سے ملنا مرا اک شخص کے کھونے سے ہوا

گزرتے پتوں کی چاپ ہوگی تمہارے صحن انا کے اندر

فسردہ یادوں کی بارشیں بھی مجھے بھلانے کے بعد ہوں گی

وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا

لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح

سجنی کی آنکھوں میں چھپ کر جب جھانکا

بن ہولی کھیلے ہی ساجن بھیگ گیا

ختم ہونے دے مرے ساتھ ہی اپنا بھی وجود

تو بھی اک نقش خرابے کا ہے مر جا مجھ میں

نہ ٹوٹ کر اتنا ہم کو چاہو کہ رو پڑیں ہم

دبی دبائی سی چوٹ اک اک ابھر گئی ہے

اسی امید پہ جلتی ہیں دشت دشت آنکھیں

کبھی تو آئے گا عمر خراب کاٹ کے وہ

نہ سوچو ترک تعلق کے موڑ پر رک کر

قدم بڑھاؤ کہ یہ حادثہ ضروری ہے

رشتوں کا بوجھ ڈھونا دل دل میں کڑھتے رہنا

ہم ایک دوسرے پر احسان ہو گئے ہیں

کسی کو قصۂ پاکیٔ چشم یاد نہیں

یہ آنکھیں کون سی برسات میں نہائی تھیں

میں سنگ رہ نہیں جو اٹھا کر تو پھینک دے

میں ایسا مرحلہ ہوں جو سو بار آئے گا

آنکھیں یوں برسیں پیراہن بھیگ گیا

تیرے دھیان میں سارا ساون بھیگ گیا

جسے میں چھو نہیں سکتا دکھائی کیوں وہ دیتا ہے

فرشتوں جیسی بس میری عبادت دیکھتے رہنا

ہمارے بیچ میں اک اور شخص ہونا تھا

جو لڑ پڑے تو کوئی بھی نہیں منانے کا

مرے بچے ترا بچپن تو میں نے بیچ ڈالا

بزرگی اوڑھ کر کاندھے ترے خم ہو گئے ہیں

گرما سکیں نہ چاہتیں تیرا کٹھور جسم

ہر اک جل کے بجھ گئی تصویر سنگ میں

میں سنگ رہ ہوں تو ٹھوکر کی زد پہ آؤں گا

تم آئینہ ہو تو پھر ٹوٹنا ضروری ہے

فیصلہ تھے وقت کا پھر بے اثر کیسے ہوئے

سچ کی پیشانی پہ ہم جھوٹی خبر کیسے ہوئے

کیا نہ ترک مراسم پہ احتجاج اس نے

کہ جیسے گزرے کسی منزل نجات سے وہ

کوئی مہکار ہے خوشبو کی نہ رنگوں کی لکیر

ایک صحرا ہوں کہیں سے بھی گزر جا مجھ میں

جاتے موسم کی طرح اس سے کبھی مل نہ سکا

ایک لمحے کے تعلق کی سزا ہوں میں تو

جاتے قدموں کی کوئی چاپ ہی شاید سن لوں

ڈوبتے لمحوں کی بارات ابھر جا مجھ میں

عذابوں سے ٹپکتی یہ چھتیں برسوں چلیں گی

ابھی سے کیوں مکیں مصروف ماتم ہو گئے ہیں

صف منافقاں میں پھر وہ جا ملا تو کیا عجب

ہوئی تھی صلح بھی خموش اختلاف کی طرح

جو خس بدن تھا جلا بہت کئی نکہتوں کی تلاش میں

میں تمام لوگوں سے مل چکا تری قربتوں کی تلاش میں

جاتے قدموں کی کوئی چاپ ہی شاید سن لوں

ڈوبتے لمحوں کی بارات ابھر جا مجھ میں

حصار گوش سماعت کی دسترس میں کہاں

تو وہ صدا جو فقط جسم کو سنائی دے

دیکھ وہ دشت کی دیوار ہے سب کا مقتل

اس برس جاؤں گا میں اگلے برس جائے گا تو

زہر بن کر وہ مصورؔ مری نس نس میں رہا

میں نے سمجھا تھا اسے بھول چکا ہوں میں تو

تھے اس کے ساتھ زوال سفر کے سب منظر

وہ دکھتے دل کے بہت سنگ میل چھوڑ گیا

کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے

ندی میں چپکے سے اک چیخ ڈوب جاتی ہے

کڑے ہیں کوس سفر دور کا ضروری ہے

گھروں سے رشتوں کا اب خاتمہ ضروری ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے