Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Dagh Dehlvi's Photo'

داغؔ دہلوی

1831 - 1905 | دلی, انڈیا

مقبول ترین اردو شاعروں میں سے ایک ، شاعری میں برجستگی ، شوخی اور محاوروں کے استعمال کے لئے مشہور

مقبول ترین اردو شاعروں میں سے ایک ، شاعری میں برجستگی ، شوخی اور محاوروں کے استعمال کے لئے مشہور

داغؔ دہلوی کے اشعار

210.2K
Favorite

باعتبار

میں بھی حیران ہوں اے داغؔ کہ یہ بات ہے کیا

وعدہ وہ کرتے ہیں آتا ہے تبسم مجھ کو

وہ جاتے ہیں آتی ہے قیامت کی سحر آج

روتا ہے دعاؤں سے گلے مل کے اثر آج

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں

روز کہتے ہیں آپ آج نہیں

ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان اب کہاں

کافر بنا گئی تری کافر نظر مجھے

جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا

بارہا آزما کے دیکھ لیا

ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

غمزہ بھی ہو سفاک نگاہیں بھی ہوں خوں ریز

تلوار کے باندھے سے تو قاتل نہیں ہوتا

مری بندگی سے مرے جرم افزوں

ترے قہر سے تیری رحمت زیادہ

مرگ دشمن کا زیادہ تم سے ہے مجھ کو ملال

دشمنی کا لطف شکوؤں کا مزا جاتا رہا

کر رہا ہے علاج وحشت دل

چارہ گر کی دوا کرے کوئی

یہ سیر ہے کہ دوپٹہ اڑا رہی ہے ہوا

چھپاتے ہیں جو وہ سینہ کمر نہیں چھپتی

عذر ان کی زبان سے نکلا

تیر گویا کمان سے نکلا

دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات

ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

یوں بھی ہزاروں لاکھوں میں تم انتخاب ہو

پورا کرو سوال تو پھر لا جواب ہو

کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا

مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

ہمیں ہے شوق کہ بے پردہ تم کو دیکھیں گے

تمہیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر لینا

کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں

ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں

بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ

وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے

تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

یہ تو کہئے اس خطا کی کیا سزا

میں جو کہہ دوں آپ پر مرتا ہوں میں

کیا سناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل

تم سے برہم پہ مرنے سے تو آساں ہوگا

دل کا کیا حال کہوں صبح کو جب اس بت نے

لے کے انگڑائی کہا ناز سے ہم جاتے ہیں

آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی

میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا

اس وہم میں وہ داغؔ کو مرنے نہیں دیتے

معشوق نہ مل جائے کہیں زیر زمیں اور

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب

یہ مزا پاکباز کیا جانیں

کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا

تخلص داغؔ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں

ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں

سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا

ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا

تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک

وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلے پہر

ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا

وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

داغ اک آدمی ہے گرما گرم

خوش بہت ہوں گے جب ملیں گے آپ

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں

کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے

تم اگر اپنی گوں کے ہو معشوق

اپنے مطلب کے یار ہم بھی ہیں

اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں

کوئی جانے کہ وفا کرتے ہیں

آتی ہے بات بات مجھے بار بار یاد

کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری

لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری

جلی ہیں دھوپ میں شکلیں جو ماہتاب کی تھیں

کھنچی ہیں کانٹوں پہ جو پتیاں گلاب کی تھیں

تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں

ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج

یہ برق بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج

میں کہا عہد کیا کیا تھا رات

ہنس کے کہنے لگا کہ یاد نہیں

زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں

ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں

فسردہ دل کبھی خلوت نہ انجمن میں رہے

بہار ہو کے رہے ہم تو جس چمن میں رہے

کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ کس کی ہے شہرت

کیا تم نے کبھی داغؔ کا دیواں نہیں دیکھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے