Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Husain Sajid's Photo'

غلام حسین ساجد

1952 | ملتان, پاکستان

غلام حسین ساجد کے اشعار

2.1K
Favorite

باعتبار

شرم آئی ہے مجھے اپنے قد و قامت پر

ماں کے جب ہونٹھ نہ پہونچے مری پیشانی تک

یہ سچ ہے میری صدا نے روشن کیے ہیں محراب پر ستارے

مگر مری بے قرار آنکھوں نے آئنے کا زیاں کیا ہے

ستارۂ خواب سے بھی بڑھ کر یہ کون بے مہر ہے کہ جس نے

چراغ اور آئنے کو اپنے وجود کا راز داں کیا ہے

یہ آب و تاب اسی مرحلے پہ ختم نہیں

کوئی چراغ ہے اس آئنے سے باہر بھی

متاع برگ و ثمر وہی ہے شباہت رنگ و بو وہی ہے

کھلا کہ اس بار بھی چمن پر گرفت دست نمو وہی ہے

حکایت عشق سے بھی دل کا علاج ممکن نہیں کہ اب بھی

فراق کی تلخیاں وہی ہیں وصال کی آرزو وہی ہے

راس آئی ہے نہ آئے گی یہ دنیا لیکن

روک رکھا ہے مجھے کوچ کی تیاری نے

مری وراثت میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دہر کے لیے ہے

یہ رنگ اک خواب کے لیے ہے یہ آگ اک شہر کے لیے ہے

اگر ہے انسان کا مقدر خود اپنی مٹی کا رزق ہونا

تو پھر زمیں پر یہ آسماں کا وجود کس قہر کے لیے ہے

یہ سچ ہے مل بیٹھنے کی حد تک تو کام آئی ہے خوش گمانی

مگر دلوں میں یہ دوستی کی نمود ہے راحت بیاں سے

میں ایک مدت سے اس جہاں کا اسیر ہوں اور سوچتا ہوں

یہ خواب ٹوٹے گا کس قدم پر یہ رنگ چھوٹے گا کب لہو سے

نشاط اظہار پر اگرچہ روا نہیں اعتبار کرنا

مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کا سراغ ملتا ہے گفتگو سے

عشق کی دسترس میں کچھ بھی نہیں

جان من! میرے بس میں کچھ بھی نہیں

عشق پر اختیار ہے کس کا

فائدہ پیش و پس میں کچھ بھی نہیں

کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے

یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

مرے مایوس رہنے پر اگر وہ شادماں ہے

تو کیوں خود کو میں اس کے واسطے برباد کر دوں

اس اندھیرے میں چراغ خواب کی خواہش نہیں

یہ بھی کیا کم ہے کہ تھوڑی دیر سو جاتا ہوں میں

جی میں آتا ہے کہ دنیا کو بدلنا چاہئے

اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہوں میں

ایک خواہش ہے جو شاید عمر بھر پوری نہ ہو

ایک سپنے سے ہمیشہ پیار کرنا ہے مجھے

ڈھونڈ لایا ہوں خوشی کی چھاؤں جس کے واسطے

ایک غم سے بھی اسے دو چار کرنا ہے مجھے

میں ہوں مگر آج اس گلی کے سبھی دریچے کھلے ہوئے ہیں

کہ اب میں آزاد ہو چکا ہوں تمام آنکھوں کے دائروں سے

ہم مسافر ہیں گرد سفر ہیں مگر اے شب ہجر ہم کوئی بچے نہیں

جو ابھی آنسوؤں میں نہا کر گئے اور ابھی مسکراتے پلٹ آئیں گے

رکا ہوں کس کے وہم میں مرے گمان میں نہیں

چراغ جل رہا ہے اور کوئی مکان میں نہیں

میں رزق خواب ہو کے بھی اسی خیال میں رہا

وہ کون ہے جو زندگی کے امتحان میں نہیں

تڑپ اٹھی ہے کسی نگر میں قیام کرنے سے روح میری

سلگ رہا ہے کسی مسافت کی بے کلی سے دماغ میرا

راس آتی ہی نہیں جب پیار کی شدت مجھے

اک کمی اپنی محبت میں کہیں رکھوں گا میں

کسی نے فقر سے اپنے خزانے بھر لیے لیکن

کسی نے شہریاروں سے بھی سیم و زر نہیں پائے

لوٹ جانے کی اجازت نہیں دوں گا اس کو

کوئی اب میرے تعاقب میں اگر آتا ہے

میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ

دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے

آج کھلا دشمن کے پیچھے دشمن تھے

اور وہ لشکر اس لشکر کی اوٹ میں تھا

کبھی محبت سے باز رہنے کا دھیان آئے تو سوچتا ہوں

یہ زہر اتنے دنوں سے میرے وجود میں کیسے پل رہا ہے

مل نہیں پاتی خود اپنے آپ سے فرصت مجھے

مجھ سے بھی محروم رہتی ہے کبھی محفل مری

جس قدر مہمیز کرتا ہوں میں ساجدؔ وقت کو

اس قدر بے صبر رہنے کی اسے عادت نہیں

عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے

وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں

اس کے ہونے سے ہوئی ہے اپنے ہونے کی خبر

کوئی دشمن سے زیادہ لائق عزت نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے