Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shahryar's Photo'

شہریار

1936 - 2012 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔

ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔

شہریار کے اشعار

70.2K
Favorite

باعتبار

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو

میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو

جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا

ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا

یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا

کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں

آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے

اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے

اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے

زندگی روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے

شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے

سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا

ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو

کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا

میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا

کون سی بات ہے جو اس میں نہیں

اس کو دیکھے مری نظر سے کوئی

بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی

دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے

سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے

جمع کرتے رہے جو اپنے کو ذرہ ذرہ

وہ یہ کیا جانیں بکھرنے میں سکوں کتنا ہے

وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے

سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو

یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے

یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو

عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام

ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہو جائیں

سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا

کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا

اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ

دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے

پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات

یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

جو ہونے والا ہے اب اس کی فکر کیا کیجے

جو ہو چکا ہے اسی پر یقیں نہیں آتا

پل بھر میں کیسے لوگ بدل جاتے ہیں یہاں

دیکھو کہ یہ مفید ہے بینائی کے لئے

اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری

یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا

اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں

کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں

مرے سورج آ! مرے جسم پہ اپنا سایہ کر

بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے

تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا

آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا

ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ

ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے

کہئے تو آسماں کو زمیں پر اتار لائیں

مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے

آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی

آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی

جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا

سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا

آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے

میں نے سب تیاریاں کر لی ہیں مرنے کے لیے

یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا

دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے

کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے

عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس

لے دے کے ایک دل ہے سو ٹوٹا ہوا سا ہے

بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں

جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا

یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے

حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو

کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو

آنکھوں میں تیری دیکھ رہا ہوں میں اپنی شکل

یہ کوئی واہمہ یہ کوئی خواب تو نہیں

وقت کو کیوں بھلا برا کہیے

تجھ کو ہونا ہی تھا جدا ہم سے

ہم جدا ہو گئے آغاز سفر سے پہلے

جانے کس سمت ہمیں راہ وفا لے جاتی

میں سوچتا ہوں مگر یاد کچھ نہیں آتا

کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا

نہ خوش گمان ہو اس پر تو اے دل سادہ

سبھی کو دیکھ کے وہ شخص مسکراتا ہے

ان دنوں میں بھی ہوں کچھ کار جہاں میں مصروف

بات تجھ میں بھی نہیں رہ گئی پہلے والی

کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا

کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا

بہت شور تھا جب سماعت گئی

بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے

زباں ملی بھی تو کس وقت بے زبانوں کو

سنانے کے لیے جب کوئی داستاں نہ رہی

Recitation

بولیے