Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anwar Shuoor's Photo'

انور شعور

1943 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک، ایک اخبار میں روزانہ حالات حاضرہ پر ایک قطعہ لکھتے ہیں

پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک، ایک اخبار میں روزانہ حالات حاضرہ پر ایک قطعہ لکھتے ہیں

انور شعور کے اشعار

43.7K
Favorite

باعتبار

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا

اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ

خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ

برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے

صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں

خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

اس تعلق میں نہیں ممکن طلاق

یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

جناب کے رخ روشن کی دید ہو جاتی

تو ہم سیاہ نصیبوں کی عید ہو جاتی

محبت رہی چار دن زندگی میں

رہا چار دن کا اثر زندگی بھر

کہہ تو سکتا ہوں مگر مجبور کر سکتا نہیں

اختیار اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ

کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے

تشریف لائیے گا ملاقات کے لئے

کس قدر بد نامیاں ہیں میرے ساتھ

کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں

مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ

نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے

میرے گھر کے تمام دروازے

تم سے کرتے ہیں پیار آ جاؤ

لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی گرمی ہو سردی ہو

نہیں رکتی کبھی برسات جب سے تم نہیں آئے

زندگی کی ضرورتوں کا یہاں

حسرتوں میں شمار ہوتا ہے

مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے

اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا

ہمیشہ ہاتھوں میں ہوتے ہیں پھول ان کے لئے

کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں

تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو

میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا

شعورؔ صرف ارادے سے کچھ نہیں ہوتا

عمل ہے شرط ارادے سبھی کے ہوتے ہیں

عشق تو ہر شخص کرتا ہے شعورؔ

تم نے اپنا حال یہ کیا کر لیا

سبھی زندگی کے مزے لوٹتے ہیں

نہ آیا ہمیں یہ ہنر زندگی بھر

کسی غریب کو زخمی کریں کہ قتل کریں

نگاہ ناز پہ جرمانے تھوڑی ہوتے ہیں

کیا بادلوں میں سفر زندگی بھر

زمیں پر بنایا نہ گھر زندگی بھر

ہیں پتھروں کی زد پہ تمہاری گلی میں ہم

کیا آئے تھے یہاں اسی برسات کے لیے

لوگ صدموں سے مر نہیں جاتے

سامنے کی مثال ہے میری

کبھی روتا تھا اس کو یاد کر کے

اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

اچھوں کو تو سب ہی چاہتے ہیں

ہے کوئی کہ میں بہت برا ہوں

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے

آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے

آدمی کے لیے رونا ہے بڑی بات شعورؔ

ہنس تو سکتے ہیں سب انسان ہنسی میں کیا ہے

دوست کہتا ہوں تمہیں شاعر نہیں کہتا شعورؔ

دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ

زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا

مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں

وہ مجھ سے روٹھ نہ جاتی تو اور کیا کرتی

مری خطائیں مری لغزشیں ہی ایسی تھیں

چلے آیا کرو میری طرف بھی!

محبت کرنے والا آدمی ہوں

سامنے آ کر وہ کیا رہنے لگا

گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگا

شعورؔ خود کو ذہین آدمی سمجھتے ہیں

یہ سادگی ہے تو واللہ انتہا کی ہے

بہت ارادہ کیا کوئی کام کرنے کا

مگر عمل نہ ہوا الجھنیں ہی ایسی تھیں

سچ ہے عمر بھر کس کا کون ساتھ دیتا ہے

غم بھی ہو گیا رخصت دل کو چھوڑ کر تنہا

ہم بلاتے وہ تشریف لاتے رہے

خواب میں یہ کرامات ہوتی رہی

مرنے والا خود روٹھا تھا

یا ناراض حیات ہوئی تھی

گو کٹھن ہے طے کرنا عمر کا سفر تنہا

لوٹ کر نہ دیکھوں گا چل پڑا اگر تنہا

گو مجھے احساس تنہائی رہا شدت کے ساتھ

کاٹ دی آدھی صدی ایک اجنبی عورت کے ساتھ

شعورؔ تم نے خدا جانے کیا کیا ہوگا

ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں

رہے تذکرے امن کے آشتی کے

مگر بستیوں پر برستے رہے بم

مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک

مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک

بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے

جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں

نظام زر میں کسی اور کام کا کیا ہو

بس آدمی ہے کمانے کا اور کھانے کا

تیری آس پہ جیتا تھا میں وہ بھی ختم ہوئی

اب دنیا میں کون ہے میرا کوئی نہیں میرا

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد

کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

کڑا ہے دن بڑی ہے رات جب سے تم نہیں آئے

دگرگوں ہیں مرے حالات جب سے تم نہیں آئے

ترے ہوتے جو جچتی ہی نہیں تھی

وہ صورت آج خاصی لگ رہی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے